ایک ایک روپیہ اکھٹا کرکے بینک اکاؤنٹ میں کروڑوں روپے جمع کرنے والا — 2 بنگلوں کا مالک اور کروڑوں؟
یہ کہانی عام آدمی کی محنت، صبر اور ایک عزم کی ہے — وہ عزم جو روزمرہ کے چھوٹے فیصلوں سے بنتا ہے۔ چند دہائیوں پہلے ایک عام سی کھلیان سے تعلق رکھنے والا شخص آج دو بنگلوں کا مالک ہے اور بینک اکاؤنٹ میں کروڑوں روپے جمع کر چکا ہے۔ اس کا سفر آسان نہیں تھا، مگر اس کی عادات اور حکمتِ عملی ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہیں۔
آغازِ سفر: عزم، سادگی اور بچت کا وعدہ
کہانی کا مرکزی کردار، جس کا نام ہم عرفاً “نعیم” رکھتے ہیں، ایک متوسطٰ خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ بچپن میں گھر کی مالی حالت اتنی اچھی نہ تھی؛ نعیم نے اپنے والدین کو چھوٹے چھوٹے کام کرتے دیکھا، بجلی کے بل پر کٹوتی، بازار میں سستی چیزیں لینا اور ایک سادہ سوکھا کھانا۔ اس نے عہد کیا کہ جب بھی کمائے گا، فضول خرچی نہیں کرے گا۔
نعیم کی ابتدائی عادت بہت ہی عام سی تھی مگر غیر معمولی نتائج کی بنیاد بن گئی: ہر کمائی کا ایک حصہ — چاہے ایک روپیہ ہی کیوں نہ ہو — بچت کے لیے الگ رکھا جاتا۔ اس کو اس عمل کی قدر اس وقت زیادہ سمجھ آئی جب ایک اچانک طبی ایمرجنسی میں اسی بچت نے اس کا خاندان بچایا۔
منظم پلان: خرچ نوٹ کرنا، بجٹ بنانا اور خود پر پابندی
نعیم نے صرف بچت پر انحصار نہیں کیا بلکہ ایک منظم مالی پلان بنایا:
- ہر ماہ آمدنی کا کم از کم 25 فیصد بچت لکھوا دی۔
- روزمرہ کے خرچ نوٹ کیے گئے — جو چیزیں بار بار خریدی جا رہی تھیں، اُن میں کمی کی گئی۔
- قہوہ یا باہر کھانے پر پابندی؛ گھر پر کھانا ترجیح دی گئی۔
- لالچ کو شکست دینے کے لیے “30 دن کا اصول” اپنایا گیا: بڑی خریداری سے پہلے 30 دن انتظار، اکثر خواہش ختم ہو جاتی تھی۔
یہ چھوٹی چھوٹی قربانیاں سالوں میں بڑے اثاثوں میں بدل گئیں۔
سرمایہ کاری کا شعور: بینک پر پیسے جمع، احتیاط سے سرمایہ کاری
نعیم نے اپنے پیسے بینک میں محض جمع نہیں کیے بلکہ انہیں ذہانت سے بڑھایا:
- پہلی پانچ سال تک خطرے سے گریز؛ سیونگ اکاؤنٹ اور فکسڈ ڈپازٹس میں رقم رکھی۔
- جب مالی علم بڑھا، تو چھوٹے حصص، افراطِ زر کے خلاف ریئل اسٹیٹ میں محتاط سرمایہ کاری شروع کی۔
- دو چھوٹے پلاٹس خریدے جن کی قدر وقت کے ساتھ بڑھی؛ ایک کو فروخت کر کے پہلا بنگلہ خریدا۔
- پھر صبر اور محنت کے ساتھ دوسرا بنگلہ سرمایہ کاری کی کمائی سے حاصل ہوا۔
اس طرح، بینک بیلنس نہ فقط بچت بلکہ دانشمند سرمایہ کاری کا نتیجہ بن گیا۔
قربانیاں، مشکلات اور سماجی ردِعمل
اس راستے میں نعیم نے کئی قربانیاں دی: دوستوں کی دعوتیں کم قبول کیں، برانڈڈ اشیاء نہیں خریدیں، اور فیملی تفریح میں بھی سادگی اپنائی۔ بعض اوقات رشتہ دار اور دوست سمجھتے تھے کہ وہ کنجوس ہے، مگر جب وقت نے اس کے فیصلوں کا پھل دکھایا تو یہی لوگ حیران رہ گئے۔
سماج میں ایسے لوگ مختلف رویہ رکھتے ہیں — کہیں تعریف، کہیں حسد۔ نعیم نے ہمیشہ عاجزی برقرار رکھی اور لوگوں کی نیکی کا بدلہ نیکی سے دیا۔
اخلاقی اور انسانی پہلو
یہ کہانی صرف پیسہ جمانے کی نہیں۔ اس میں انسانیت، ذمہ داری اور خاندان کا تحفظ بھی شامل ہے۔ نعیم نے اپنی آمدنی کا کچھ حصہ خیرات اور معاشرتی خدمت میں بھی دیا۔ اس نے مقامی اسکول کی بحالی میں چندہ دیا اور غریب مریضوں کا علاج کروایا۔ اس کا ماننا تھا کہ دولت ہمیشہ دوسروں کے لیے بھی ہونی چاہیے۔
بغیر میراث کے سبق: آپ بھی کر سکتے ہیں
نعیم جیسے بننے کے لیے چند عملی نکات:
- ہر ماہ بچت کا مقررہ حصہ علیحدہ کریں — چاہے چھوٹا ہو، مگر مستقل۔
- خرچ لکھیں — اپنے مالی بہاؤ کا ریکارڈ رکھیں۔
- فالتو خواہشات پر قابو پائیں — “چاہت” اور “ضرورت” میں فرق سمجھیں۔
- مختصر مدت میں جلدی امیر ہونے کے منصوبوں سے بچیں — دوڑ میں صبر ہی اصل جیت ہے۔
- مالی تعلیم حاصل کریں — بنیادی سرمایہ کاری، افراط زر، اور بینک پروڈکٹس سمجھیں۔
- خیرات اور سماجی ذمہ داری — دولت کا حصہ دوسروں کے لیے بھی رکھیں۔
نتیجہ
نعیم کی کہانی یہ ثابت کرتی ہے کہ “ایک ایک روپیہ” واقعی معنوں میں بڑا ہوتا ہے جب اسے مستقل مزاجی، منصوبہ بندی اور دانشمندانہ سرمایہ کاری کے ساتھ جوڑا جائے۔ دو بنگلے، کروڑوں روپے اور سماجی احترام اس کی زندگی کے ثمرات ہیں — مگر اس کا اصل انعام وہ ذہانت، نظم اور دوسروں کے لیے دل کھول کر دینے کا جذبہ تھا جو اس نے اپنے سفر میں برقرار رکھا۔