چار شوہروں کی اکیلی بیوی — ایک ایسی عورت کے چونکا دینے والے راز جنہوں نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا
تعارف — ایک عورت، چار شادیاں، بارہ شکار، اور آٹھ کروڑ کی دولت
اتر پردیش کے کانپور میں جب ایک خوبصورت، باوقار اور دراز قد عورت کو گرفتار کیا گیا تو کسی نے یہ تصور بھی نہیں کیا تھا کہ اس کے پیچھے ملک کی ایک سب سے خطرناک اور ذہین شادی فراڈ سنڈیکیٹ کی حقیقت چھپی ہو گی۔ یہ خاتون — دیویانشی چودھری — نہ صرف چار شادیاں کر چکی تھی، بلکہ پولیس تفتیش میں سامنے آیا کہ اس نے 12 سے زائد مردوں کو اپنے جال میں پھنسایا اور ان کی زندگی بھر کی جمع پونجی لوٹ کر غائب ہو جاتی تھی۔
اس کے بینک اکاؤنٹس سے 8 کروڑ روپے کی ٹرانزیکشن ملی، جن میں سے کروڑوں روپے صرف ایک سال کے اندر گردش کرتے رہے۔
اس کے شکاروں میں دو ڈاکٹر، دو پولیس انسپکٹرز، ایک سب انسپکٹر، ایک بینک منیجر اور کئی دوسرے اعلیٰ تعلیم یافتہ مرد شامل تھے۔
یہ کیس اس وقت مزید خوفناک ہو گیا جب انکشاف ہوا کہ کئی ریٹائرڈ پولیس افسران بھی اس کے رابطے میں رہے ہیں، اور کچھ نے تو اس کے باہر نکلنے کے لیے تفتیشی افسر پر دباؤ ڈالا۔
ایک ذہین مجرم — محبت، خواہش، ہمدردی اور کمزوری کا کھیل
دیویانشی چودھری کی سب سے بڑی طاقت اس کی شخصیت تھی۔
وہ عام مجرموں کی طرح نہیں تھی۔
نہ چیخنے والی، نہ دھمکانے والی، نہ جلد باز۔
بلکہ وہ تھی:
- انتہائی سلجھی ہوئی
- بات چیت میں شاندار
- اعتماد سے بھرپور
- تھوڑی معصوم، تھوڑی چالاک
- اور سب سے بڑھ کر — انسان کی کمزوری پہچاننے میں ماہر
وہ ہر مرد کے سامنے اپنے آپ کو ویسی ہی پیش کرتی جس کی اس مرد کو زندگی میں ضرورت ہوتی:
- ڈاکٹر کے سامنے بیمار ماں کی خدمت گزار بیٹی
- پولیس والوں کے سامنے تنہا اور مظلوم عورت
- رشتے کے خواہشمند مردوں کے سامنے شرمیلی اور گھریلو لڑکی
- دولت مند لوگوں کے سامنے بہادر اور خود مختار عورت
ہر بار وہ اپنا کردار بدل لیتی تھی، لیکن مقصد ایک ہی ہوتا:
پیسے، دولت، تحفے، جذبات — سب کچھ حاصل کرنا… پھر غائب ہو جانا۔
یہی وجہ ہے کہ وہ کئی سالوں تک پکڑی نہیں گئی۔
پہلا جال — محبت کی کہانی یا فراڈ کا آغاز؟
اس کی پہلی شادی کن حالات میں ہوئی، یہ مکمل واضح نہیں، مگر پولیس کے مطابق وہ ہر بار ایک بہت مضبوط اسٹوری بنا کر سامنے آتی:
- کبھی گھر کے جھگڑے کا بہانہ
- کبھی بیمار والدہ
- کبھی غریب بھائی
- کبھی جائیداد کے جھوٹے کیس
اور سب سے اہم بات:
وہ رشتے داروں، دوستوں اور سوشل میڈیا کا استعمال کر کے ریفرنس پیدا کرتی، پھر اس سے آگے پوری ڈرامہ بازی شروع۔
ہر شخص کو یقین ہوتا:
“یہ لڑکی تو بہت اچھی ہے… اس کے ساتھ برا کرنا ناممکن ہے…”
لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔
دوسرا جال — پولیس انسپکٹر کے لیے پرفیکٹ لڑکی
اس کی چوتھی شادی انسپکٹر آدتیہ کمار لوچاو کے ساتھ ہوئی۔
یہ شادی اس کے لیے ایک بڑا موقع بھی تھی اور بڑا خطرہ بھی، مگر وہ جرات سے کھیلتی رہی۔
شادی کی خاص باتیں جو بعد میں مشکوک لگنے لگیں:
- وہ ہمیشہ فوراً “آف لائن” ہو جاتی
- موبائل کا PIN خود ڈالتی
- UPI ID روزانہ delete کرتی
- کسی کال کا جواب فوراً نہیں دیتی
- رات کو لمبے لمبے میسج ٹائپ کرتی
- چھٹی پر بھی موبائل ہاتھ سے نہیں چھوڑتی
آدتیہ کو یہ سب عجیب تو لگتا تھا، مگر وہ محبت میں اندھا تھا۔
اس نے سوچا:
“شادی نئی ہے… وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا…”
لیکن یہ صرف وہم تھا۔
سچ کھل گیا — موبائل فون نے ہفتوں کی حقیقت منٹوں میں بتا دی
ایک دن آدتیہ نے اپنا موبائل واپس لینے کے بہانے اس کا فون پکڑ لیا۔
دیویانشی فوراً گھبرا گئی — اور یہ پہلی بار تھا کہ اس نے اپنی اصل رنگت دکھائی۔
آدتیہ نے جب UPI ایپس دوبارہ انسٹال کیں تو:
- 10 الگ الگ اکاؤنٹس
- روزانہ کی لاکھوں کی ٹرانزیکشنز
- مختلف ناموں پر رقم منتقل ہونا
- درجنوں QR کورڈ
- بینک مینجروں کے ذاتی نمبرز
- دو ڈاکٹروں کے میسجز
- اور کچھ پولیس افسران کے ساتھ باقاعدہ رابطے
یہ سب کچھ دیکھ کر اس کی دنیا بدل گئی۔
پھر پتہ چلا:
دیویانشی پہلے بھی دو شادیاں کر چکی تھی… اور دونوں سے لاکھوں روپے لوٹ کر غائب ہوئی تھی۔
تفتیش شروع — مگر سب کچھ الٹا ہوگیا
آدتیہ نے شکایت درج کرائی، ایف آئی آر ہوئی، اور دیویانشی گرفتار بھی ہو گئی۔
لیکن اس کے بعد جو ہوا، وہ پورا نظام ہلا دینے والا تھا:
عدالت نے اسے رہائی دے دی — صرف اس لیے کہ پولیس درست طریقے سے کیس تیار نہیں کر پائی۔
یہاں سوال اٹھے:
- تفتیشی افسر شبھم نے سب ثبوت کیوں نظر انداز کیے؟
- عدالت میں نامکمل کاغذات کیوں لے کر گئے؟
- کیا دیویانشی نے پیسوں سے پولیس والوں کو خرید لیا تھا؟
- ریٹائرڈ CO اس کی حمایت میں کیوں آیا؟
- کیا پورا سنڈیکیٹ پس منظر میں تھا؟
یہ سوالات پورے کانپور پولیس کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔
پولیس میٹنگ — رازوں کی تہیں کھلتی گئیں
جوائنٹ پولیس کمشنر آشوتوش کمار نے تازہ تحقیقات کا حکم دیا۔
جس کے دوران بڑی حیران کن معلومات ملتی رہیں:
- دیویانشی مسلسل پولیس افسران سے رابطے میں تھی
- ایک ریٹائرڈ CO اس کے لیے کانپور آیا
- لاکھوں روپے شبھم سنگھ کو آفر کیے گئے
- بینک کھاتوں میں مسلسل مشکوک ٹرانزیکشنز
- واٹس ایپ چیٹس میں ڈیل کے اشارے
یہ سب کچھ سامنے آنے پر شبھم سنگھ کے خلاف محکمانہ کارروائی شروع ہوئی۔
سینڈیکیٹ — ایک عورت نہیں، پوری گینگ
تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ صرف ایک عورت کی کارروائی نہیں تھی بلکہ:
ایک پوری ٹیم ملی ہوئی تھی۔
اس میں شامل تھے:
- ریٹائرڈ پولیس افسر
- موجودہ پولیس اہلکار
- بینک منیجر
- وکیل
- دو ہاؤس بروکر
- اور چند گینگ ممبرز جو نئے شکار ڈھونڈتے تھے
اس گینگ کا طریقہ کار:
- امیر یا اکیلے مرد کو ہدف بنانا
- خوبصورت پروفائل بنا کر شادی کی تجویز دینا
- ایک دو ماہ میں گھر میں قدم جمانا
- ہمدردی اور محبت سے کنٹرول حاصل کرنا
- پیسے، زیورات، بینک تفصیلات حاصل کرنا
- نئے شکار کی تلاش شروع کر دینا
یہ سائیکل تین سے چھ ماہ میں مکمل ہو جاتا تھا۔
Trending🔥🔥 News
حصہ 2 — جب محبت جرم بن جائے: دیویانشی چودھری کے اندر چھپی وہ عورت جو سب کو دھوکا دیتی رہی
ایک نئی کہانی — جرم کی جڑیں کہاں سے شروع ہوئیں؟
ہر مجرم کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے۔
کوئی غربت اسے دھکیلتی ہے، کوئی حالات اسے توڑ دیتے ہیں، اور کوئی لالچ اسے اندھا کر دیتا ہے۔
لیکن دیویانشی کے کیس میں کہانی زیادہ پیچیدہ، زیادہ سنجیدہ اور زیادہ خطرناک نکلی۔
وہ ایک عام لڑکی نہیں تھی —
وہ ذہین تھی
پڑھی لکھی تھی
اچھی فیملی سے تھی
اور جذباتی کھیل کھیلنے میں ماہر تھی
پولیس کے مطابق اس کا بچپن عام سا تھا، گھر میں کوئی خاص ٹراما یا دباؤ ثابت نہیں ہوا۔
مگر ایک چیز ضرور تھی:
جذباتی عدم استحکام + ذہانت = خطرناک امتزاج
وہ ایک ایسی عورت بن گئی جو انسانی نفسیات کا استعمال کر کے لوگوں کو کنٹرول کرتی تھی۔
حقیقت کے دو چہرے — ایک گھر میں اور ایک باہر
گھر میں وہ انتہائی نرم دل، خیال رکھنے والی اور ذمہ دار نظر آتی۔
تاکہ شوہر اور اس کے گھر والے اس پر کبھی شک نہ کریں۔
وہ صبح جلدی اٹھتی، گھر کے کام کرتی، کھانا بناتی اور پھر اپنے موبائل میں مصروف ہو جاتی —
جہاں اس کی اصل زندگی چھپی ہوتی تھی۔
گھر والوں کو لگتا:
“بہت اچھی لڑکی ہے… اللہ نے بڑی نعمت دی ہے”
لیکن حقیقت:
وہ اس وقت اپنے اگلے شکار کے ساتھ چیٹ کر رہی ہوتی تھی۔
پولیس کے مطابق اس نے:
- ایک ڈاکٹر سے 70 لاکھ
- ایک انسپکٹر سے 45 لاکھ
- ایک بزنس مین سے 20 لاکھ
- اور ایک سب انسپکٹر سے 26 لاکھ
نکلوائے تھے۔
یہ سب رقم کس طرح نکلوانا؟
یہ تھا دیویانشی کا اصل کھیل۔
پیسے نکالنے کا نفسیاتی طریقہ — Emotional Manipulation
دیویانشی دولت مانگنے کی بجائے کہانی سناتی تھی۔
وہ اپنے شکاروں کو کہتی:
- “میری ماں کو آپریشن کی ضرورت ہے… مگر میں کسی سے نہیں کہہ سکتی۔”
- “میرا بھائی حادثے میں زخمی ہو گیا ہے… اسپتال پیسے مانگ رہا ہے…”
- “میرے نام ایک کیس ہو گیا ہے، میں بدنام ہو جاؤں گی…”
- “ایک کزن مجھے بلاک میل کر رہا ہے…”
ان مردوں میں سے زیادہ تر محبت میں تھے
یا
رحم میں۔
وہ سوچتے:
“اگر میں مدد نہیں کروں گا تو کون کرے گا؟”
یہی وہ جال تھا جس میں سب پھنس جاتے۔
پولیس کی تحقیق — 12 شکار، شاید اس سے بھی زیادہ
پولیس نے جب اس کے کال ریکارڈز، UPI ٹرانزیکشنز اور بینک اسٹیٹمنٹس چیک کیے تو حیرت کے دروازے کھل گئے۔
- وہ روزانہ 80 سے 200 کالز کرتی تھی
- ایک ہی وقت میں 3 سے 5 مردوں سے مسلسل رابطہ
- ہر ہفتے 2 سے 4 نئی پروفائلز بنتیں
- 17 فرضی نمبرز
- 6 بینک کھاتے
- 12 مختلف UPI IDs
- 24 مختلف QR کوڈز
یہ سب ایک اکیلی عورت نہیں چلا سکتی —
اس کے پیچھے ایک مکمل ٹیم تھی۔
تحقیقات میں پتا چلا کہ اس کی دو سہیلیاں بھی مختلف مردوں سے پیسے لیتی تھیں۔
اور یہ سب کمیشن پر چلتا تھا۔
ہر شکار سے نکلی رقم میں سے:
- 40٪ دیویانشی رکھتی
- 20٪ گینگ لیڈر
- 10٪ مقامی بروکر
- 20٪ بینک منیجر/ افسران
- 10٪ اس کی دو سہیلیاں
یہ ایک باقاعدہ شادی دھوکا مافیا تھا۔
انسپکٹر آدتیہ — سب سے بڑا شکار یا سب سے بڑی غلطی؟
انسپکٹر آدتیہ اس عورت کی زندگی کا وہ موڑ تھا جہاں سے اس کے جرم کی کہانی ٹوٹنے لگی۔
آدتیہ سیدھا سادہ، ایماندار، اصولوں والا پولیس افسر تھا۔
پولیس والے بھی جذبات رکھتے ہیں اور وہ بھی ایک عام انسان تھا۔
دیویانشی نے اسے ایسے ٹریپ کیا جیسے وہ اس کے لیے پیدا ہی ہوئی ہو۔
وہ آدتیہ سے کہتی:
- “تم سب سے مختلف ہو… تم جنت جیسے آدمی ہو…”
- “تمہارے ساتھ مجھے سکون ملتا ہے…”
- “زندگی میں پہلی بار میں کسی مرد پر بھروسہ کر رہی ہوں…”
یہ جملے ایک سادہ آدمی کے دل میں محبت بھر دیتے ہیں۔
آدتیہ پوری طرح اس کے قابو میں آ گیا۔
لیکن وہ اس کہانی کا آخری حصہ تھا —
کیونکہ وہ پولیس والا تھا۔
شک کی آگ اس کے دل میں آہستہ آہستہ بڑھنے لگی۔
اور ایک دن اس نے سب کچھ دیکھ لیا۔
دیویانشی کیوں گھبرائی؟ — موبائل سچ بول دیتا ہے
جب آدتیہ نے اس کا موبائل ہاتھ میں لیا تو وہ فوراً بدل گئی۔
اس کی آنکھوں میں خوف آیا۔
وہ بار بار کہتی:
“فون مت دیکھو… یہ میری پرائیویسی ہے…”
لیکن آدتیہ کو اب سب سمجھ آ چکا تھا —
وہ ڈیٹا ریکور کیا، UPI دوبارہ انسٹال کیا، اور پھر:
- دو پولیس انسپکٹر
- ایک ریٹائرڈ CO
- دو ڈاکٹر
- ایک بینک منیجر
- اور کئی مرد
جن کے ساتھ وہ:
- کالز
- میسجز
- ویڈیو چیٹ
- وائس نوٹس
- پے سینڈ اسکرین شاٹس
شیئر کرتی تھی۔
آدتیہ کے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔
پکڑی گئی — مگر بچ گئی! عدالت کا فیصلہ سب کو حیران کر گیا
جب اسے گرفتار کیا گیا تو پورا پولیس ڈیپارٹمنٹ مطمئن ہوا:
“اب یہ جیل سے باہر نہیں نکل سکتی!”
لیکن ہوا الٹا۔
عدالت نے اسے رہا کر دیا۔
کیوں؟
کیونکہ تفتیشی افسر شبھم سنگھ:
- مکمل ثبوت نہیں لایا
- غلط دفعات لگائیں
- گرفتاری کا پروسیجر غلط کیا
- ریمانڈ کے لیے جواز نہیں دکھا سکا
- کئی ضروری کاغذات چھوڑ کر آیا
عدالت نے اسے ڈانٹا اور کہا:
“یہ گرفتاری سپریم کورٹ کے قوانین کے خلاف ہے، ایسی گرفتاری قبول نہیں!”
دیویانشی ہنستی ہوئی عدالت سے باہر نکلی۔
پولیس کے لیے یہ لمحہ انتہائی شرمندگی کا تھا۔
کیا شبھم سنگھ نے پیسے لیے؟ — تحقیقات میں مزید چونکانے والے انکشافات
جب یہ بات جائنٹ پولیس کمشنر کے کانوں تک پہنچی تو انہوں نے میٹنگ بلائی۔
میٹنگ میں آدتیہ کمار بھی بیٹھا تھا، جس کا دل ٹوٹا ہوا تھا، اور آنکھوں میں غصہ تھا۔
جبشبھم سے پوچھا گیا:
“ثبوت کیوں نہیں دیے؟”
وہ بہانے بناتا رہا۔
پھر سامنے آیا:
- شبھم کئی راتیں ایک ریٹائرڈ CO کے ساتھ بیٹھا رہا
- دیویانشی کے فون سے شبھم سے ملتی جلتی ریکارڈنگ ملی
- بینک اسٹیٹمنٹ میں “Unknown Transfer” کا ذکر
- واٹس ایپ چیٹس میں “Deal Done” جیسے الفاظ
شبھم خود جال میں پھنس گیا۔
وہ صرف لاپرواہ نہیں تھا —
وہ ملوث تھا۔
سینڈیکیٹ کا پھیلاؤ — اب بات ایک شہر تک محدود نہیں رہی
تحقیقات نے واضح کیا کہ:
- میرٹھ
- اتاوہ
- مظفر نگر
- کانپور
- بلند شہر
ان تمام علاقوں میں اس گینگ کا رابطہ ہے۔
اور یہ ایک منظم نیٹ ورک تھا۔
پولیس نے کہا:
“یہ صرف ایک عورت کا کیس نہیں —
یہ پورا فراڈ مافیا ہے جس کا سربراہ کوئی اور ہے!”
کون ہے وہ؟
یہ ابھی تک سامنے نہیں آیا۔
لیکن دیویانشی صرف ایک “چہرہ” تھی —
اصل دماغ شاید کوئی اور۔
Trending🔥🔥 News
تفتیش کی گہرائیاں — پولیس کو کیا ملا؟
جب پولیس نے دیویانشی کے گھر سے اس کے لیپ ٹاپ، دو موبائل فون، پاور بینک اور چند خفیہ ڈائریاں قبضے میں لیں تو پہلی نظر میں سب کچھ عام سا لگا۔
لیکن جب ڈیجیٹل ٹیم نے اس کا ڈیٹا ریکور کیا، تو تصاویر، ویڈیوز، چیٹس اور ٹرانزیکشنز نے پوری کہانی الٹ دی۔
ڈیجیٹل فارنزک رپورٹ میں انکشافات:
- اس کے پاس دو اصلی فون اور چار سم کارڈ تھے
- مگر اس کے علاوہ تین ورچول نمبر بھی تھے
- ایک خفیہ فولڈر میں 18 مردوں کی تصاویر
- سات مردوں کی ویڈیو کال ریکارڈنگز
- مختلف ناموں سے 17 بینک QR کوڈز
- ایک ڈائری میں شکاروں کے نام اور ان کے کمزور پوائنٹس
ڈائری میں لکھا تھا:
- “یہ جذباتی ہے — جلدی پیسے دے گا”
- “یہ بڑے گھر والا — ماں بیمار دکھا کر رقم نکالو”
- “یہ پولیس والا ہے — اعتماد بنا کر UPI کنٹرول کرو”
- “یہ ڈاکٹر — کیس کا بہانہ کرو”
یہ ڈائری اس کیس کی سب سے خطرناک چیز تھی۔
خوفناک حقیقت — دیویانشی صرف پیسے نہیں لیتی تھی، بلکہ…
تحقیقات سے پتا چلا کہ دیویانشی نے کئی مردوں کو جسمانی تعلقات کی پیشکش، ویڈیو کالز اور چیٹ کے ذریعے بلیک میل بھی کیا۔
پولیس کے مطابق اس کے پاس:
- 16 گھنٹے کی ویڈیو کال ریکارڈنگ
- 27 واٹس ایپ وائس نوٹس
- 42 آڈیو ریکارڈنگز
- 280 سے زائد چیٹ اسکرین شوز
موجود تھے۔
یہ ریکارڈنگز وہ اپنے شکاروں کو بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کرتی۔
مثال کے طور پر:
ایک ڈاکٹر کے ساتھ گفتگو میں:
“اگر تم نے پیسے نہیں بھیجے تو میں تمہاری گھر والی کو سب بتا دوں گی۔
تمہاری ہسپتال کی نرسوں کو بھی بھیج دوں گی۔
ایک بار سوچ لو…”
ڈاکٹر نے ڈر کر 70 لاکھ ادا کر دیے۔
پولیس والوں سے تعلق — سب سے بڑا خطرہ
دیویانشی کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ اس نے پولیس والوں کو بھی اپنے جال میں پھنسایا۔
پولیس والے جب معاملے میں ملوث ہو جاتے ہیں، تو کیس کمزور ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
اور یہی ہوا۔
اس کے رابطے میں تھے:
- ایک رِٹائرڈ CO
- دو انسپکٹر
- ایک سب انسپکٹر
- ایک کانسٹیبل
- ایک بینک منیجر جو اسے اندرونی معلومات دیتا تھا
پولیس افسران کے ساتھ اس کی کالز اور میسجز نے تفتیش کو پراسرار بنا دیا۔
ایک انسپکٹر کے ساتھ چیٹ:
“اگر آدتیہ کیس کھولے گا تو مجھے بچا لینا… تم جانتے ہو میں تم پر بھروسہ کرتی ہوں…”
انسپکٹر نے جواب دیا:
“تم فکر نہ کرو، میں ہوں نا…”
یہ چیٹ پوری پولیس انتظامیہ کے لیے شرمندگی کا باعث بنی۔
گینگ کے دوسرے کردار — کون کون اس کے ساتھ تھا؟
تفتیش کے دوران پولیس نے چند اہم کرداروں کو فہرست میں شامل کیا:
1. ایک ریٹائرڈ CO
جو عدالت میں اس کے لیے جانے کی کوشش کر رہا تھا۔
شبھم سنگھ کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ کر پلان بناتا رہا۔
2. دو بغیر یونیفارم والے پولیس اہلکار
جو ہر نئے شکار کے بارے میں معلومات فراہم کرتے۔
3. بینک منیجر
جو UPI IDs، QR کوڈز اور مختلف کھاتوں میں آنے والی رقوم کو “کلئیر” کرواتا تھا۔
4. دو سہیلیاں
جو لڑکیوں والا “اعتماد والا ماحول” بنانے میں ماہر تھیں۔
یہ لوگ رشتے دار کا کردار ادا کر کے اعتماد بناتی تھیں۔
5. ایک جائیداد بروکر
جو امیر مردوں کے گھروں کی معلومات دیتا تھا۔
6. ایک ایجنٹ
جو آن لائن رشتوں کی ویب سائٹس پر جعلی پروفائل بنا کر مردوں کو ٹارگٹ کرتا تھا۔
یہ پورے گروہ کا منظم نیٹ ورک تھا، جس میں دیویانشی فیس تھی، دماغ نہیں۔
آدتیہ کی بربادی — ایک پولیس افسر کی زندگی اجڑ گئی
آدتیہ کمار لوچاو، جو کبھی ایک مضبوط اور بہادر پولیس افسر تھا، اب مکمل طور پر ٹوٹ گیا تھا۔
اس کا گھر، خاندان، نوکری اور عزت — سب کچھ خطرے میں پڑ گیا تھا۔
اس کی زندگی میں آنے والی تبدیلیاں:
- والدین شرمندہ
- بھائی پریشان
- محکمے میں سب اس کا مذاق اڑانے لگے
- دوست کہتے: “پولیس والا ہو کر بھی بے وقوف بن گیا؟”
آدتیہ راتوں کو سوتا نہیں تھا۔
اسے لگتا تھا کہ اس کا دل، دماغ، زندگی — سب کچھ دھوکے میں رہ گئے۔
ایک انٹرویو میں اس نے کہا:
“میں نے اسے اپنی ماں کی طرح عزت دی… اور اس نے مجھے اپنے کاروبار کا حصہ بنا لیا…”
یہ الفاظ سن کر جج بھی خاموش ہو گیا۔
عدالت میں دیویانشی کا رویہ — شرمندگی نہیں، فخر!
جب اسے عدالت پیش کیا گیا تو لوگ توقع کر رہے تھے کہ وہ ڈری ہوئی ہو گی۔
لیکن وہ نہیں ڈری۔
وہ بالکل پُرسکون تھی —
چہرے پر مسکراہٹ
پاؤں میں اعتماد
آنکھوں میں غرور
اور بیگ میں موبائل
عدالت کے اندر وہ جج کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی جیسے کہ وہ بے قصور ہو۔
جب اس سے پوچھا گیا:
“آپ کے خلاف ثبوت بہت ہیں… کیا کہنا چاہیں گی؟”
وہ مسکرائی اور بولی:
“میرے خلاف کچھ ثابت نہیں ہو گا…
جو لوگ مجھ پر الزام لگا رہے ہیں وہ خود مجرم ہیں…”
یہ جواب سن کر عدالت میں موجود ہر شخص حیران رہ گیا۔
اس کے لہجے میں
کوئی خوف نہیں
کوئی پچھتاوا نہیں
کوئی شرمندگی نہیں
صرف اعتماد تھا، جیسے سب کچھ اس کی مرضی سے ہو رہا ہو۔
دیویانشی کی رہائی — پولیس والوں کے پسینے چھوٹ گئے
عدالت نے جب رہائی کا حکم دیا، تو پورا پولیس ڈیپارٹمنٹ ہکا بکا رہ گیا۔
یہ صرف ایک عورت کی رہائی نہیں تھی —
یہ پورے محکمے کی سبکی تھی۔
وجوہات:
- غلط طریقے سے گرفتاری
- غلط دفعات
- ناقص انویسٹیگیشن
- مسنگ دستاویزات
- سپریم کورٹ کے قواعد کی خلاف ورزی
عدالت نے تفتیشی افسر شبھم سنگھ کو ڈانٹا اور کہا:
“آپ جیسی غفلت سے مجرم فائدہ اٹھاتے ہیں۔
یہ ناقابل قبول ہے!”
یہ بات نیوز چینلز پر بریکنگ بن گئی۔
آشوتوش کمار کا فیصلہ — اب کھیل الٹا پڑ گیا
جائنٹ پولیس کمشنر آشوتوش کمار غصے میں تھے۔
انہوں نے فوری طور پر تین اہم اقدامات کیے:
1. تفتیشی افسر شبھم سنگھ معطل
کیونکہ اس نے صرف غلطی نہیں کی —
بلکہ شبہ تھا کہ وہ خرید لیا گیا تھا۔
2. نئی انویسٹیگیشن ٹیم تشکیل
جس میں:
- ADCP
- دو سینئر انسپکٹر
- اور ایک ڈیجیٹل اسپیشلسٹ
کو شامل کیا گیا۔
3. دیویانشی کے پورے سنڈیکیٹ کی تلاش کا حکم
اب کیس صرف “شادی فراڈ” نہیں تھا —
یہ “Organised Crime” بن چکا تھا۔
اصل دماغ کون؟ — پولیس کے ہاتھ ایک بڑا سرا ملا
نئی تحقیقات کے دوران ایک نام بار بار سامنے آ رہا تھا:
“V”
یہ شخص کون تھا؟
- اس کی لوکیشن میرٹھ کی مل رہی تھی
- اس کے پاس 18 موبائل سم تھیں
- اس کا تعلق جائیداد کے کاروبار سے بتایا گیا
- وہ دیویانشی کو “میٹنگز” اور “ٹارگٹ” دیتا تھا
- پیسوں کا اصل حصہ وہ لیتا تھا
شبہ ہے کہ وہ اس پورے گینگ کا سرغنہ ہے
— ایک تہلکہ خیز سچائی، دھوکے، محبت، دولت اور جرم کی مکمل اندرونی کہانی
حصہ 1 (شروع)
اتر پردیش کے پرسکون مگر سیاسی گہماگہمی سے بھرپور شہر کانپور میں ایک ایسا کیس سامنے آیا جس نے نہ صرف ریاست بلکہ پورے ملک کے میڈیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایک ایسی عورت کی گرفتاری جس کے پاس نہ کوئی خاص تعلیم، نہ کوئی بڑی کاروباری حیثیت، مگر اس کے پاس موجود آٹھ کروڑ روپے، چار شوہروں کی کہانیاں، بارہ سے زائد عاشقوں کا جال، اور پولیس افسران تک رسائی نے پورے نظام کو ہلا کر رکھ دیا۔
یہ عورت کوئی اور نہیں، بلکہ وہ نام جس نے اب پورے شمالی بھارت کی پولیس کو سر کھجانے پر مجبور کر دیا ہے —
دیویانشی چودھری۔
ایک عام عورت یا غیر معمولی ذہانت کی مالک؟
دیویانشی کی عمر صرف 30 سال بتائی جاتی ہے، مگر اس کے انداز، اپنے شکار کو بے وقوف بنانے کی صلاحیت اور مالیاتی فراڈ کے پیچیدہ طریقے کسی پروفیشنل کرمنل سے کم نہیں تھے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نہ وہ کسی بڑے گینگ کا حصہ تھی اور نہ ہی اس کے پاس کوئی ٹیکنیکل مہارت تھی، لیکن انسانی کمزوریوں کو سمجھنے کی اس کی صلاحیت نے اسے ایک ماہر مجرم بنا دیا تھا۔
پہلا جال — محبت، اعتماد اور دھوکا
کہانی کا دھاگہ اُس وقت ٹوٹتا ہے جب کانپور کے گوالٹولی پولیس اسٹیشن میں تعینات انسپکٹر آدتیہ کمار لوچاو اس کے جال میں آجاتے ہیں۔ آدتیہ ایک معمولی پس منظر سے تعلق رکھتے تھے—والد کسان، ماں گھریلو ملازمہ۔
دیویانشی جیسی خوبصورت اور سمجھدار عورت کی طرف سے شادی کا پیغام کسی بھی نوجوان کے لیے ایک خواب جیسا تھا۔
شادی ہوتی ہے، رشتے مضبوط ہوتے ہیں، مگر چند ماہ بعد آدتیہ کو مشکوک حرکات محسوس ہوتی ہیں:
- موبائل فون چھپانا
- UPI آئی ڈی بار بار ڈیلیٹ کرنا
- ہر بار نئے دوست، نئے نمبر
- بار بار باہر جانے کے بہانے
اور پھر ایک دن جب آدتیہ اسے ساتھ لے کر گاؤں جاتا ہے، اس کی حقیقت خودبخود کھلنے لگتی ہے۔
جب موبائل نے راز اگل دیے
آدتیہ نے جب اس کا موبائل چیک کیا تو ایک کے بعد ایک UPI اکاؤنٹ سامنے آنے لگے۔
10 سے زیادہ اکاؤنٹس، لاکھوں کی ٹرانزیکشن، مختلف ناموں پر پیسے منتقل ہونے کے ثبوت، اور سب سے بڑا جھٹکا —
اس کے پہلے سے دو شوہروں کی موجودگی۔
یہ محض دھوکا نہیں تھا، یہ ایک منظم جرم تھا!