سعودی عرب کے لوگ صحرا میں اونٹوں کی سواری ہی کریں‘ — اسرائیلی وزیر اپنے متنازع بیان پر شدید تنقید کی زد میں

’سعودی عرب کے لوگ صحرا میں اونٹوں کی سواری ہی کریں‘ — اسرائیلی وزیر اپنے متنازع بیان پر شدید تنقید کی زد میں

اسرائیل کے ایک وزیر کے متنازع بیان نے مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی سفارتی ہلچل مچا دی ہے۔ اسرائیلی وزیر نے ایک تقریب کے دوران کہا کہ “سعودی عرب کے لوگ صحرا میں اونٹوں کی سواری ہی کریں، ٹیکنالوجی اور ترقی ان کے بس کی بات نہیں” — یہ جملہ سنتے ہی نہ صرف سعودی عرب بلکہ پوری عرب دنیا میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔


بیان کہاں اور کیسے سامنے آیا؟

یہ بیان اسرائیلی وزیر ایلی کوہن کی جانب سے ایک غیر رسمی گفتگو کے دوران سامنے آیا، جہاں وہ مشرقِ وسطیٰ میں معاشی شراکت داری اور ٹیکنالوجی تعاون کے مستقبل پر بات کر رہے تھے۔
ابتدائی طور پر یہ کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، جس میں وزیر کو سعودی عرب کے بارے میں تضحیک آمیز لہجے میں بات کرتے دیکھا گیا۔

انہوں نے کہا:

“ہمیں اپنی ٹیکنالوجی اُن ممالک کے ساتھ بانٹنی چاہیے جو آگے بڑھنا چاہتے ہیں، نہ کہ اُن کے ساتھ جو اب بھی صحرا میں اونٹ دوڑانے میں خوش ہیں۔”

یہ جملہ سامنے آتے ہی اسرائیل کے سفارتی حلقوں کو بھی حیران کر گیا، کیونکہ گزشتہ مہینوں سے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے اشارے دیے جا رہے تھے۔


سعودی عرب کا ردِ عمل

سعودی وزارتِ خارجہ نے اس بیان کو “نازیبا، نسل پرستانہ اور اشتعال انگیز” قرار دیا ہے۔
ریاض میں جاری کیے گئے ایک سرکاری بیان میں کہا گیا:

“یہ الفاظ نہ صرف سعودی عوام بلکہ پورے عرب خطے کی توہین ہیں۔ ایسے بیانات تعلقات کی بہتری کی کوششوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔”

سعودی سوشل میڈیا پر بھی #RespectArabCulture اور #BoycottIsrael جیسے ہیش ٹیگز ٹرینڈ کرنے لگے۔


عرب دنیا میں ردِ عمل

متحدہ عرب امارات، بحرین اور قطر سمیت کئی عرب ممالک کے صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے بھی اسرائیلی وزیر کے بیان پر سخت تنقید کی ہے۔
عرب نیوز کے ایک اداریے میں لکھا گیا:

“یہ وہی ذہنیت ہے جس نے مشرقِ وسطیٰ کو دہائیوں تک تقسیم رکھا۔ اگر اسرائیل واقعی خطے کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہے تو اسے تکبر اور تعصب کے رویے ترک کرنا ہوں گے۔”


اسرائیل کے اندر بھی مخالفت

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل کے اندر سے بھی اس بیان کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ کئی اسرائیلی سیاستدانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے کہا کہ ایسے غیر ذمہ دارانہ جملے اسرائیل کے سفارتی مفادات کے لیے نقصان دہ ہیں۔

ایک اسرائیلی تجزیہ کار نے کہا:

“ایسے بیانات سعودی عرب کے ساتھ ممکنہ امن معاہدے کے امکانات کو کمزور کرتے ہیں۔ یہ وقت باہمی احترام کا ہے، طنز اور تکبر کا نہیں۔”


پس منظر: تعلقات کی بہتری کی کوششیں

حالیہ مہینوں میں اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان پسِ پردہ بات چیت کی خبریں سامنے آئی تھیں۔ امریکی ثالثی کے تحت دونوں ممالک کے درمیان تجارتی، سیکورٹی اور ٹیکنالوجی تعاون پر مباحثے جاری تھے۔

تاہم، اس بیان کے بعد مبصرین کا کہنا ہے کہ اب یہ پیش رفت “عارضی طور پر رُک سکتی ہے” کیونکہ سعودی عوامی رائے اب اسرائیل کے خلاف سخت موقف اختیار کر رہی ہے۔


سوشل میڈیا پر طوفان

ٹوئٹر، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر ہزاروں صارفین نے وزیر کے بیان کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے شدید ردعمل دیا۔
کئی سعودی صارفین نے طنزیہ طور پر اپنے اونٹوں کی ویڈیوز شیئر کرتے ہوئے لکھا:

“ہاں، ہم اونٹ چلاتے ہیں، لیکن تیل، سرمایہ اور امن کے بغیر تمہاری ٹیکنالوجی کچھ نہیں کر سکتی۔”


بین الاقوامی ردِ عمل

امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے بھی بیان دیا کہ “اس طرح کے تبصرے خطے میں امن اور استحکام کی کوششوں کے لیے سازگار نہیں ہیں۔”
یورپی یونین نے بھی زور دیا کہ تمام فریقین کو باہمی احترام اور سفارتی آداب کے دائرے میں رہ کر بات چیت کرنی چاہیے۔


نتیجہ

اسرائیلی وزیر کا یہ بیان نہ صرف سفارتی غلطی ہے بلکہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مشرقِ وسطیٰ میں امن اور تعاون کی امیدیں دوبارہ جنم لے رہی تھیں۔
سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات اگر واقعی بہتر ہونے ہیں، تو ایسے بیانات کو روکنا اور باہمی احترام کی فضا قائم کرنا انتہائی ضروری ہے۔

Leave a Comment