پاکستان میں ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھنے والے طلبہ کے لیے بری خبر — پرائیویٹ میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کی فیسوں میں ایک بار پھر اضافہ

پاکستان میں ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھنے والے طلبہ کے لیے بری خبر — پرائیویٹ میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کی فیسوں میں ایک بار پھر اضافہ

پاکستان میں میڈیکل تعلیم ہمیشہ سے ایک خواب، ایک جدوجہد اور ایک طویل محنت کا سفر سمجھی جاتی ہے۔ ہزاروں طلبہ ہر سال ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس میں داخلے کے لیے امتحانات دیتے ہیں، لیکن اب اُن کے لیے ایک نئی مشکل کھڑی ہو گئی ہے۔ پرائیویٹ میڈیکل اور ڈینٹل کالجز نے ایک بار پھر اپنی فیسوں میں نمایاں اضافہ کر دیا ہے، جس سے متوسط طبقے کے طلبہ اور اُن کے والدین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

فیسوں میں اضافے کی نئی شرح

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) کی ہدایات کے باوجود متعدد نجی اداروں نے فیسوں میں 10 سے 20 فیصد تک اضافہ کر دیا ہے۔ کئی معروف کالجز نے ایم بی بی ایس کی سالانہ فیس 18 لاکھ سے بڑھا کر 22 لاکھ روپے تک کر دی ہے، جب کہ ڈینٹل کالجز میں یہ شرح 16 لاکھ سے بڑھ کر 20 لاکھ روپے کے قریب پہنچ چکی ہے۔

طلبہ کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں ڈاکٹر بننا صرف “امیر طبقے” تک محدود ہو جائے گا۔ ایک طالبعلم کے مطابق:

“ہم نے خواب دیکھا تھا کہ ڈاکٹر بن کر ملک کی خدمت کریں گے، لیکن اب فیسیں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ عام گھر کا بچہ داخلہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔”


والدین اور طلبہ میں تشویش

والدین کے مطابق، میڈیکل تعلیم کے اخراجات پہلے ہی بلند تھے۔ اب فیسوں میں اضافے نے اُن پر معاشی بوجھ کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، ایک طالبعلم کو پانچ سال کے ایم بی بی ایس پروگرام کی تکمیل پر تقریباً 1.2 کروڑ روپے خرچ کرنے پڑیں گے — جو کسی متوسط خاندان کے لیے ممکن نہیں۔


حکومتی پالیسی پر سوالات

سماجی حلقے اور تعلیمی ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ حکومت کو پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے فیس اسٹرکچر پر سخت نگرانی کرنی چاہیے۔ پی ایم ڈی سی اور وزارتِ صحت کو بارہا درخواست دی جا چکی ہے کہ فیسوں میں شفافیت لائی جائے اور طلبہ کے لیے اسکالرشپس یا سبسڈی کا کوئی مؤثر نظام بنایا جائے۔


پبلک سیکٹر کی محدود نشستیں

سرکاری میڈیکل کالجز میں داخلوں کی نشستیں محدود ہونے کی وجہ سے ہزاروں اہل طلبہ پرائیویٹ اداروں کا رخ کرتے ہیں۔ مگر اب بڑھتی ہوئی فیسوں نے اُن کے لیے یہ راستہ بھی تقریباً بند کر دیا ہے۔ 2025 کے داخلہ سیزن میں پبلک سیکٹر میں صرف 8500 نشستیں دستیاب ہیں، جب کہ نجی کالجز میں 12 ہزار سے زائد۔


تعلیم — یا کاروبار؟

بدقسمتی سے میڈیکل تعلیم اب ایک منافع بخش کاروبار بنتی جا رہی ہے۔ متعدد کالجز ایسے بھی ہیں جن میں نہ لیبارٹریز مکمل ہیں نہ تربیت یافتہ فیکلٹی، مگر فیسیں بین الاقوامی معیار سے بھی زیادہ وصول کی جا رہی ہیں۔

ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو پاکستان میں قابل اور دیانتدار ڈاکٹرز کی کمی پیدا ہو سکتی ہے، کیونکہ ذہین مگر مالی طور پر کمزور طلبہ اس پیشے سے باہر ہوتے جائیں گے۔


ممکنہ حل

  • حکومت کو میڈیکل تعلیم کے لیے نیشنل سبسڈی اسکیم متعارف کرانی چاہیے۔
  • پی ایم ڈی سی کو فیسوں کی سالانہ حد مقرر کرنی چاہیے جس سے تجاوز کی اجازت نہ ہو۔
  • پرائیویٹ کالجز کو اپنے فیس اسٹرکچر عوامی سطح پر شفاف طریقے سے ظاہر کرنے کا پابند بنایا جائے۔
  • مستحق طلبہ کے لیے میڈیکل اسکالرشپ فنڈ قائم کیا جائے۔

نتیجہ

پاکستان میں ڈاکٹر بننے کا خواب اب پہلے سے زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ تعلیم ایک بنیادی حق ہے، لیکن جب اسے کاروبار میں تبدیل کر دیا جائے تو خواب صرف خواب ہی رہ جاتے ہیں۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے وقت میں پاکستان میں میڈیکل فیلڈ صرف چند طبقوں تک محدود ہو جائے گی — اور یہ قوم کے لیے ایک سنگین المیہ ہو گا

Leave a Comment