دو بھائی اور قبرستان کا فقیر
ایک گاؤں میں دو بھائی رہتے تھے، جو مزاج اور کردار میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے۔ بڑے بھائی، رفیق، انتہائی خودغرض اور لالچی تھا، جبکہ چھوٹا بھائی، وحید، نرم دل، رحم دل اور دوسروں کی مدد کرنے والا تھا۔ دونوں بھائیوں کے والد کا انتقال ہو چکا تھا، اور وہ ایک پرانی زمین اور تھوڑی سی دولت کے وارث تھے۔
رفیق ہمیشہ اپنے فائدے کی سوچتا، اور اپنے چھوٹے بھائی کو حقیر سمجھتا تھا۔ وہ دن رات وحید کو یہ احساس دلاتا کہ اس کے بغیر وحید کچھ نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف، وحید خاموشی سے اپنی زندگی گزارتا اور اپنے بھائی کے رویے کو نظرانداز کرتا۔
فقیر کا ظہور
ایک دن دونوں بھائی اپنی زمین کے مسائل پر بحث کرتے کرتے گاؤں کے قبرستان کے قریب پہنچ گئے۔ وہاں انہوں نے ایک عجیب و غریب فقیر کو بیٹھے دیکھا۔ فقیر کے کپڑے بوسیدہ تھے، لیکن اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی روشنی تھی۔ وہ خاموشی سے بیٹھا ہوا تھا، اور اس کے پاس ایک کشکول تھا جس میں چند سکے پڑے تھے۔
فقیر نے دونوں بھائیوں کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا،
“بیٹوں، تم دونوں کے چہروں پر پریشانی لکھی ہوئی ہے۔ کیا بات ہے؟”
رفیق نے کہا، “یہ ہمارا ذاتی معاملہ ہے، تم اپنے کام سے کام رکھو!”
وحید نے فقیر کے نرم لہجے سے متاثر ہو کر کہا، “ہم دونوں بھائی ہیں اور اپنی زمین کے معاملے پر جھگڑ رہے ہیں۔”
فقیر نے گہری سانس لی اور کہا،
“میں تم دونوں کو ایک راز بتا سکتا ہوں جو تمہاری زندگیاں بدل سکتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ تم دونوں کو میرے سوالوں کے سچے جواب دینے ہوں گے۔”
سوالات اور امتحان
فقیر نے پہلے رفیق کی طرف دیکھا اور کہا،
“تمہارے دل کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟”
رفیق نے جواب دیا،
“مجھے دولت چاہیے، بہت ساری دولت! میں دنیا کا سب سے امیر آدمی بننا چاہتا ہوں۔”
پھر فقیر نے وحید سے پوچھا،
“اور تمہاری خواہش؟”
وحید نے کہا،
“میں چاہتا ہوں کہ میرے دل کو سکون ملے اور میرے بھائی کے ساتھ ہمارا رشتہ بہتر ہو جائے۔”
فقیر نے دونوں کو غور سے دیکھا اور کہا،
“اچھا، تو تم دونوں کی خواہشیں مختلف ہیں۔ چلو، میں تمہیں ایک موقع دیتا ہوں۔ اس قبرستان کے وسط میں ایک پرانا درخت ہے۔ اس کے نیچے ایک صندوق دفن ہے۔ جو بھی اسے نکالے گا، وہ اپنی سب سے بڑی خواہش پوری کر سکتا ہے۔ لیکن یاد رکھو، اس صندوق تک پہنچنے کے لیے دل کی پاکیزگی ضروری ہے۔”
آزمائش کا آغاز
دونوں بھائیوں نے فوراً اس درخت کی طرف دوڑ لگائی۔ رفیق کے ذہن میں صرف دولت کا خیال تھا، جبکہ وحید کو یہ لگتا تھا کہ شاید اس سے ان کا رشتہ بہتر ہو جائے۔
درخت تک پہنچنے کے بعد، رفیق نے جلدی سے زمین کھودنی شروع کر دی۔ وحید بھی اس کی مدد کرنے لگا، لیکن رفیق نے غصے سے کہا،
“یہ صندوق میرا ہے، تم اس سے دور رہو!”
جب صندوق نکل آیا، تو رفیق نے جلدی سے اسے کھولا۔ اندر ایک کاغذ پڑا تھا، جس پر لکھا تھا:
“جو چاہتا ہے، اسے قربانی دینی پڑتی ہے۔”
رفیق نے اسے نظرانداز کیا اور کہا،
“یہ سب بکواس ہے۔ مجھے دولت چاہیے!”
انجام
جیسے ہی رفیق نے صندوق کے اندر موجود دوسری چیز کو چھوا، اچانک ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ رفیق زمین پر گر گیا، اور اس کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ وہ چیخنے لگا،
“میری بینائی! میں کچھ نہیں دیکھ سکتا!”
فقیر اچانک وہاں آ گیا اور وحید سے کہا،
“دیکھو، لالچ انسان کو اندھا کر دیتا ہے۔ تمہارا بھائی اپنی دولت کی خواہش میں خود کو کھو بیٹھا۔”
وحید نے فقیر سے منت کی،
“براہ کرم، میرے بھائی کو معاف کر دیں!”
فقیر نے کہا،
“اگر تم سچے دل سے قربانی دو گے، تو تمہارا بھائی ٹھیک ہو سکتا ہے۔”
وحید نے اپنی زمین اور دولت کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ فقیر نے اس کے اخلاص کو دیکھ کر رفیق کی بینائی واپس کر دی۔
سبق
رفیق کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس نے وحید سے معافی مانگی۔ دونوں بھائیوں نے اپنی زندگی کا نیا آغاز کیا اور ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ فقیر غائب ہو گیا، لیکن اس کی باتیں ہمیشہ ان کے دلوں میں زندہ رہیں۔
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ لالچ انسان کو اندھا کر دیتا ہے، جبکہ قربانی اور محبت سب کچھ ٹھیک کر سکتی ہیں۔