طوفانِ نوح کے بعد دنیا کی آباد کاری: ایک تفصیلی جائزہ
طوفانِ نوحؑ ایک ایسا واقعہ ہے جو نہ صرف اسلامی تاریخ میں بلکہ دیگر الہامی مذاہب میں بھی ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ قرآنِ کریم، تورات، اور انجیل میں اس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ تاہم، اسلامی نقطۂ نظر سے اس واقعے کی تفصیلات اور اس کے بعد دنیا کی دوبارہ آباد کاری کا ذکر نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
طوفان کے بعد دنیا کی آباد کاری
جب طوفان ختم ہوا اور حضرت نوحؑ کی کشتی “جودی پہاڑ” پر رکی، تو قرآنِ مجید میں اس کا ذکر یوں آیا:
(سورۃ ہود: 44)
ترجمہ: “اور کشتی جودی پہاڑ پر جا ٹھہری اور کہا گیا کہ ظالم قوم پر لعنت ہو۔”
کشتی سے کل 80 افراد اُترے، جیسا کہ متعدد اسلامی روایات میں ذکر کیا گیا ہے۔ ان افراد میں حضرت نوحؑ، ان کے اہلِ خانہ، اور کچھ دیگر مومن شامل تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے طوفان کی ہلاکت سے بچایا۔
طوفان کے بعد انسانیت کا آغاز
طوفان کے بعد دنیا کی آباد کاری کے حوالے سے ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں انسانیت کا دوبارہ آغاز کیسے ہوا۔ روایات کے مطابق، کشتی سے اترنے والے افراد میں کچھ میاں بیوی کے جوڑے بھی شامل تھے، لیکن ایک مخصوص روایت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ان میں سے اکثر کو ایک بیماری میں مبتلا کر دیا، جس کے سبب وہ اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئے۔
یہ روایت بعض قدیم اسلامی تفاسیر اور تاریخی کتابوں میں بیان کی گئی ہے، لیکن اس کی صحت کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ایک استعارہ یا امتحان تھا تاکہ انسانیت کو دوبارہ ایک نئے انداز میں آباد کیا جا سکے، اور نسلِ انسانی کا تسلسل صرف حضرت نوحؑ کے بیٹوں سے جاری ہوا۔
قرآن اور نسلِ انسانی کی تفصیل
قرآنِ مجید میں حضرت نوحؑ کے بیٹوں کا ذکر واضح طور پر کیا گیا ہے:
(سورۃ الصافات: 77)
ترجمہ: “اور ہم نے ان کی نسل کو باقی رہنے والا بنایا۔”
اس آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ طوفان کے بعد انسانیت کی نسل حضرت نوحؑ کی اولاد سے ہی چلی۔ ان کے تین بیٹوں، سام، حام، اور یافث، کو نسلِ انسانی کے تین بڑے گروہوں کے آباؤ اجداد مانا جاتا ہے:
- سام: سامی اقوام کے جد (عرب، یہود، اور دیگر مشرقِ وسطیٰ کے لوگ)
- حام: افریقی اقوام کے جد
- یافث: یورپ اور ایشیا کی اقوام کے جد
بیماری کا ذکر اور اس کی توجیہ
بعض تاریخی روایات کے مطابق، طوفان کے بعد باقی افراد جو کشتی میں تھے، ایک بیماری یا عارضے کا شکار ہو گئے، جس کے باعث وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ رہے۔ یہ امتحان اللہ کی حکمت کا حصہ تھا تاکہ حضرت نوحؑ اور ان کی اولاد کے ذریعے ایک نئی نسل کا آغاز کیا جائے۔
علماء کے نزدیک یہ روایت ایک استعارہ بھی ہو سکتی ہے، جو اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی سے انسانیت کا آغاز ایک مخصوص منصوبے کے تحت ہوا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ طوفان کے بعد موجود افراد کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے قرآن اور احادیث میں صرف حضرت نوحؑ کی اولاد کو نسلِ انسانی کے لیے اہم قرار دیا گیا ہو۔
اسلامی روایات اور احادیث کی روشنی میں
حضرت نوحؑ کے واقعہ کے حوالے سے متعدد احادیث بھی ملتی ہیں، جن میں ان کی دعا اور ان کے صبر کا ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت نوحؑ کو “آدم ثانی” بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی اولاد سے دنیا میں نسلِ انسانی کا دوبارہ آغاز ہوا۔
نتیجہ
طوفانِ نوحؑ کے بعد دنیا کی آباد کاری ایک معجزاتی عمل تھا، جو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کا مظہر ہے۔ اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہے انسانیت کو نئے سرے سے تخلیق کر سکتا ہے اور اپنے خاص بندوں کو انعامات سے نوازتا ہے۔
یہ واقعہ ہمیں ایمان، صبر، اور اللہ تعالیٰ کی مرضی پر یقین رکھنے کا درس دیتا ہے۔ انسانی تاریخ کے اس اہم موڑ کو قرآنِ کریم اور دیگر الہامی کتابوں میں بطور نشانِ عبرت بیان کیا گیا ہے تاکہ انسان اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ سکے اور اللہ کے احکام پر عمل کرے۔