سلطان صلاح الدین ایوبی
دوستوں اپ کو یہاں پر سلطان صلاح الدین ایوبی کی عقلمندی کا ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہیں ایک دفعہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ نے علی بن سلطان کو اپنے کمرے میں بلایا اور کہا کہ آج میرا دل کر رہا ہے کہ میں بازار میں جا کر اپنے لیے کچھ خرید نا چاہتا ہوں اور اسی طرح بازار کی سیر و تفریح بھی ہو جائے گی جب یہ بہ یہ بات علی بن سفیان نے سنی تو علی بن سفیان کہنے لگا سلطان معظم یہ سلطنت بھی آپ کی اور یہ بازار بھی اپ کے تو اپ کو کسی سے اجازت لینے کی کیا ضرورت تو سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ دوسری طرف مجھے یہ سوچ ہے کہ اگر میں بازار میں گیا تو بازار میں مجھے دیکھ کر لوگوں کی بھیڑ لگ جائے گی اور تاجروں کے کام پر اثر پڑے گا اور میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کسی غریب کے رزق میں رکاوٹ آئے تو علی بن سفیان تھوڑی دیر سوچنے میں مصروف ہو گیا اور پھر کہنے لگا
سلطان معظم میرے پاس ایک ترکیب ہے جس سے آپ بازار میں خرید و فروخت بھی کر لیں گے اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور اسی بہانے بازار کی سیر و تفریح بھی ہو جائے گی تو سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا بتاؤ کون سی ترکیب ہے تو علی بن سفیان نے کہا حضور آپ بھیس بدل کر بازار میں چلے جائیں اور خرید و فروخت کر کے واپس آ جائیں کسی کو بھی پتہ نہیں چلے گا کہ آپ سلطان صلاح الدین ایوبی ہیں علی بن سفیان کی یہ ترکیب سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کو پسند آگئی سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عام آدمی کا بھیس بدلا اور ہاتھ میں ایک ڈنڈا لیے گھوڑے پر روانہ ہو گیا
سلطان صلاح الدین ایوبی بازار میں پہنچ گیا ہر طرف لوگ خرید و فروخت میں مصروف تھے کیونکہ لوگ خریداری بہت زیادہ کر رہے تھے کیونکہ اگے عید الفطر انے والی تھی اس لیے بازار میں بہت زیادہ بھیڑ لگی ہوئی تھی سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ تاجر کے پاس گئے اور کپڑا دیکھنے کے لیے تاجر کو مخاطب کیا تاجر نے آپ کے سامنے بہت سارے لباس رکھے اور کہا حضور ان میں سے جو اپ کو پسند آئے وہ بتا دیں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ ان کپڑوں کو پسند کر رہا تھا کہ اچانک بازار کے نگر سے لوگوں کے شور کی اواز اور آنے لگی سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس تاجر سے پوچھا کہ یہ شور کس وجہ سے ہے تو اس تاجر نے کہا بھائی اس بازار کی نکر پر مسلمانوں نے ایک زمیندار سے زمین خریدی تاکہ اس جگہ پر مسجد بنا سکیں تاکہ بازار میں موجود انے والے مسافر مسجد میں نماز ادا کر سکے لیکن بازار کے تاجروں نے زمیندار سے زمین خریدی تو اس نے دھوکے سے ایسے معاہدے پر ہم سے دستخط کروا لیے جس پر لکھا تھا کہ زمین سے تقریبا 15 فٹ کے بعد زمین کا وہ مالک زمیندار ہو جائے گا اور وہ جسے چاہے دے دے گا جب یہ بات سلطان صلاح الدین نے سنی تو کہا کہ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ زمین سے 15 فٹ کے اوپر کے بعد وہ ازمیندار زمین کا کیا کرے گا تو اس تاجر نے کہا بھائی وہ زمیندار بڑا ہی منافق نکلا اس نے مسلمانوں اور عیسائیوں کو لڑانے کے لیے ایک چال چلی سلطان نے کہا وہ کیسے تو اس تاجر نے کہا اب اس زمیندار نے مسلمانوں کو کہا ہے کہ جب تم 15 فٹ تک اپنی مسجد کی تعمیر کر لو گے تو 15 فٹ کے بعد میں مسجد سے اوپر ایک شراب خانہ بنانے کے لیے عیسائیوں کو جگہ دے دوں گا سلطان نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے تاجر نے کہا کہ وہ زمیندار چاہتا ہے کہ وہ مسجد کی چھت پر ان عیسائیوں کو شراب خانہ بنانے کے لیے جگہ دے گا سلطان نے کہا کہ یہ تو سراسر زیادتی ہے
سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ اہستہ اہستہ اس بھیڑ کی طرف بڑھنے لگا کہ جاکر معلوم کرے کہ اصل میں بات کیا ہے لیکن اتنے میں سلطان صلاح الدین ایوبی اس بھیڑ کے قریب جانے ہی لگا تھا کہ پیچھے سے اپ کے ایک خفیہ سپاہی نے آ کر خبر دی کہ حضور پڑوسی بادشاہ کا ایلچی محل میں آپ کے لیے بہت خاص پیغام لے کر آیا ہے اور وہ آپ کا انتظار کر رہا ہے علی بن سفیان نے پیغام بھجوایا کہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے آپ محل پہنچے کیونکہ پیغام بہت قیمتی ہے یہ بات سلطان صلاح الدین ایوبی نے سنی تو سلطان صلاح الدین ایوبی واپس اس جگہ سے محل کی طرف روانہ ہو گیا
اور ادھر وہ بازار کے تاجر اور عیسائی یہ معاملہ لے کر قاضی صاحب کے پاس پہنچے اور قاضی صاحب کے سامنے مقدمہ پیش کیا جب قاضی صاحب نے دونوں فریقین کے دلائل سنے تو عیسائی نے پھر وہی دستاویزات دکھائے جن پر تمام تاجروں کے دستخط کیے گئے تھے اب قاضی صاحب نے کہا کہ قانونا تو یہ مسجد کی چھت پر کچھ نہیں بنا سکتے لیکن تم سب تاجروں نے اپنے ہی ہاتھوں سے اس پر دستخط کر دیے ہیں کہ زمین سے 15 فٹ کے اوپر یہ زمیندار اصل زمین کا مالک ہوا ہوگا اور وہ . وہ جسے چاہے ، وہ جگہ دے سکتا ہے قاضی صاحب نے کہا کہ اب ان دستاویزات کو دیکھ کر ہی فیصلہ سناؤں گا اور اس قاضی صاحب نے مجبوری میں اگر فیصلہ ان عیسائیوں کے حق میں کر دیا ان دونوں گروپوں کے درمیان کشید گیاں پہلے سے زیادہ بڑھ گئی اور پورے بازار میں فساد پھیلنے لگا اور دشمن اپنے منصوبے میں کامیاب ہو رہا تھا کیونکہ اس کے پیچھے دشمن کی بہت بڑی چال تھی لیکن ابھی تک اس چال کو کوئی بھی نہیں سمجھ پا رہا تھا اتفاق سے اس قاضی صاحب کو خیال آیا کہ میں نے اپنے عہدے کی لاج رکھتے ہوئے اس مقدمے کا فیصلہ سنایا لیکن اگر اپ سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس یہ مقدمہ لے کر جائیں تو وہ اس کا کوئی ایسا مناسب حل نکالے گا جس سے دشمن کی چال ملیا میٹ ہو جائے گی اور وہ عیسائی دھول چاٹ کر واپس چلے جائیں گے یہ خبر سن کر تمام تاجر سلطان صلاح الدین ایوبی کی کھلی کچہری میں پہنچ گئے
سلطان صلاح الدین ایوبی عدالت میں موجود تھا سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ علیہ نے پوچھا تو انہوں نے وہی ساری بات بتائی جو سلطان صلاح الدین ایوبی کو اس بازار میں موجود تاجر نے بتائی تھی ؟ سلطان نے دونوں کے دلائل سنے اور ان دستاویزات کو دیکھا تو سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا کہ معاہدہ وہی ہوتا ہے جس میں دونوں فریقین پورے پورے حقائق جان لیں تبھی وہ معاہدہ پایا تکمیل تک پہنچتا ہے پہلی بات یہ معاہدہ میری نظر میں کسی کام کا نہیں کیونکہ اس معاہدے پر ان تاجروں سے دھوکے سے دستخط کروائے گئے لیکن اگر میں اس بنیاد پر فیصلہ ان تاجروں کے حق میں دے دوں تو تم عیسائی یہی سمجھو گے کہ میں نے مسلمانوں کی طرفداری کی اور انصاف سے ہٹ کر فیصلہ کیا اور تم میرے پر شک کرو گے کہ لہذا تم مسلمانوں کے مسجد بنانے کے بعد مسجد کی چھت پر شراب خانہ بنانے کے لیے اپنا سامان تیار کرو یہ بات مسلمان تاجروں نے سنی تو بڑے حیران ہوئے اور اپس میں سرگوشی کرنے لگے کہ یہ سلطان کو کیا ہو گیا ہم یہاں پر انصاف لینے کے لیے ائے تھے الٹا یہ ان عیسائیوں کے ساتھ مل گیا تو جب وہ عیسائی چلئے گئے تو اتنے میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے ان تاجروں کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ کبھی بھی پورے حقائق جانے بغیر تنقید کرنا عظمندی کا کام نہیں پہلے تم میری بات سن لو پھر جو تمہارا دل کرے تم اپنی رائے دے دینا تاجروں نے کہا سلطان معظم ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا اپ ہی ہمیں بہتر طریقے سے سمجھائیں اتنے میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ نے تاجروں کو کہا کہ تم نے زمیندار سے یہی معاہدہ کیا تھا کہ تم زمین سے 15 فٹ کی بلندی تک اپنی مسجد تعمیر کرو گے اور اس کے بعد والا حصہ وہ زمیندار چاہے ہے کسی کو بھی دے سکتا ہے تو ہم تاجروں میں سے ایک تاجر بولا جی ہاں سلطان معظم ایسا ہی اس معاہدے میں لکھا گیا ہے تو سلطان نے کہا کہ تم جاؤ اپنی مسجد کی تعمیر شروع کرو جب مسجد تعمیر ہو جائے تو مجھے بتانا لیکن ایک بات کا : کا خیال رکھنا کہ تم نے مسجد کی تعمیر صرف 14 فٹ سے کم رکھنی ہے اوپر نہیں کرنی تاجر وہاں سے چلے گئے
انہوں نے جاکر مسجد کی تعمیر شروع کر دی جب مسجد کی تعمیر مکمل ہو گئی تو ادھر سے وہ عیسائی اپنی تعمیر شروع کرنے کے لیے وہاں پہنچ گئے اتنے میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک تاجر : پیغام لے کر ایا کہ سلطان معظم ہماری مسجد کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے اور اب وہ عیسائی اپنا سامان لے کر پہنچ چکے ہیں تو سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ علیہ اسی وقت گھوڑے پر روانہ ہوا اور اس بازار میں پہنچ گیا تو عیسائیوں سے کہا کہ تمہارا کیا معاہدہ ہوا تھا انہوں نے کہا کہ ہمارا یہی معاہدہ ہوا تھا کہ ہم 15 فٹ کے اوپر اپنی مسجد کی چھت پر شراب خانہ بنائیں گے تو سلطان صلاح الدین نے ایک معمار کو کہا کہ یہ مسجد کی بلندی کتنی ہے ؟ جب اس نے ناپا تو اس نے کہا سلطان معظم یہ صرف 14 فٹ تک ہے تو اب سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا کہ تمہارا معاہدہ 15 فٹ کا تھا تو تم 15 فٹ کے اوپر ہوا میں جو چیز بھی بنانا چاہو بنا سکتے ہو ہمیں تمہاری اس بات سے کوئی غرض نہیں لیکن اس سے نیچے تم ایک اینٹ بھی نہیں لگا سکتے جب یہ بات ان عیسائیوں نے سنی تو ان کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی اور تاجر نے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کی عقلمندی کو دیکھ کر تمام بازار سلطان صلاح الدین ایوبی کے زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا
اور اتنے میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے جاسوسوں نے معلومات حاصل کر لی کہ سلطان معظم یہ پڑوسی بادشاہ کی ایک چال تھی جو مسلمانوں اور عیسائیوں کو اپس میں لڑوا کر بازار میں فساد ڈالنا چاہتا تھا اور ان کا مالک وہ زمیندار تھا تو سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ علیہ نے اپنے سپاہی بھیجے اور اسی وقت اس زمیندار کو پکڑ کر سلطان صلاح الدین ایوبی کے سامنے حاضر کیا گیا تو سلطان صلاح الدین رحمۃ اللہ علیہ نے تمام لوگوں کے سامنے اس زمیندار کا سر قلم کر دیا اور کہا جو بھی سلطان کی اس سر زمین پر غداری کرنے کوشش کرے گا اس کا انجام یہی ہو گا جو راہ حق کا مسافر ہوتا ہے اللہ تعالی اسے کبھی گرنے نہیں دیتا اور اس جگہ سے اپنے بندے کی مدد کرتا ہے جہاں سے کسی کا گمان بھی نہیں ہوتا