Sultan Salahuddin ayyubi ke Imaan ki Imtihan ki story in Urdu-سلطان صلاح الدین ایوبی اور “ایمان کا امتحان

سلطان صلاح الدین ایوبی اور “ایمان کا امتحان”

یہ کہانی ایک ایسے دن کی ہے جب سلطان صلاح الدین ایوبی کی قیادت کا اصل امتحان اس کے دل اور ایمان کا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب صلیبی جنگیں شدت اختیار کر چکی تھیں، اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے سامنے صرف میدان جنگ کے چیلنجز نہیں، بلکہ اخلاقی اور روحانی فیصلے بھی تھے۔

ایک دن سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے خیمے میں بیٹھا تھا، اور اس کی فوجیں بیابانوں میں دشمن کے مقابلے کے لیے تیار ہو رہی تھیں۔ اس دوران ایک مسلمان سپاہی، جس کا نام “محمود” تھا، سلطان کے سامنے آیا۔ وہ ایک جوان اور بہادر سپاہی تھا، جو ہمیشہ میدان جنگ میں اولین صفوں میں لڑتا تھا۔ لیکن اس دن اس کے چہرے پر کوئی عجب سا غم تھا۔

سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے دیکھ کر پوچھا، “محمود، تمہاری حالت کیوں غمگین ہے؟ تم تو ہمیشہ فاتح کی طرح لڑتے ہو، آج کیا بات ہے؟”

محمود نے سر جھکاتے ہوئے کہا، “میرے سلطان، میرے دل میں ایک سوال ہے جس کا جواب میں تلاش نہیں کر پا رہا۔ مجھے خوف ہے کہ میں اس جنگ میں جو کرنے جا رہا ہوں، وہ میرے ایمان کے خلاف نہ ہو۔”

سلطان نے محمود کو قریب بلایا اور نرم آواز میں کہا، “بیٹے، ایمان کا امتحان صرف اس میدان جنگ میں نہیں، بلکہ ہر روز کے فیصلوں میں ہوتا ہے۔ بتاؤ، کیا تمھارا دل تمہیں اس جنگ میں جانے سے روکتا ہے؟”

محمود نے کہا، “نہیں، میرے سلطان، میرا دل دشمن کے خلاف لڑنے کو تیار ہے، لیکن مجھے خوف ہے کہ میں انتقام کے جذبات میں آ کر ظلم نہ کروں، اور وہ میری روح پر بوجھ بن جائے۔”

سلطان صلاح الدین ایوبی نے محمود کی باتوں کو بہت غور سے سنا اور پھر ایک گہری سانس لے کر کہا، “بیٹے، جنگ کے میدان میں ہمیں اپنی تلوار سے دشمن کو شکست دینی ہوتی ہے، لیکن اپنے دل میں انسانیت اور رحم کی تلوار کو ہمیشہ تیز رکھنا ہوتا ہے۔ ہم جو بھی کریں، وہ ہمارے ایمان کی عکاسی کرتا ہے۔”

پھر سلطان نے محمود کو ایک کہانی سنائی، جو اس کے دل میں اتر گئی:

“ایک دفعہ ایک جنگ میں، میں نے اپنے دشمن کا ایک سپہ سالار پکڑا۔ وہ میرے سامنے گرتا ہے، اور میں نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا۔ لیکن پھر میرے دل میں ایک آواز آئی: ‘تم دشمن کے خون سے اپنی تلوار کو نہیں دھونا چاہتے، تمہیں اس کی زندگی دینی چاہیے تاکہ تمہارے دل میں انسانیت کا رنگ رہے۔’ میں نے اس کی زندگی بخشی اور اسے آزاد کر دیا۔ وہ دشمن تھا، لیکن اس کے ساتھ انصاف اور رحم کرنا ہی میری جیت تھی۔”

سلطان نے مزید کہا، “ہم جو کچھ کرتے ہیں، وہ اللہ کے راستے پر ہو، ہمیں اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کرنے ہوں گے۔ انتقام میں خوشی نہیں، بلکہ رحم اور انصاف میں سکون ہوتا ہے۔”

محمود کی آنکھوں میں آنسو تھے، لیکن اس کے دل میں ایک نئی روشنی پیدا ہوئی۔ اس نے سلطان کے قدموں میں جھک کر کہا، “میرے سلطان، میں اب سمجھ گیا ہوں۔ اگر اللہ کے راستے پر چلنا ہے تو ہمیں اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا ہوگا۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ جنگ میں لڑتے ہوئے بھی، میں اپنے ایمان کو ہاتھ سے جانے نہیں دوں گا۔”

چند دن بعد، جب جنگ کا آغاز ہوا، محمود نے میدان میں قدم رکھا، لیکن اس کے دل میں سلطان کے الفاظ گونج رہے تھے۔ اس نے دشمن پر تلوار چلائی، لیکن جب اس نے ایک دشمن سپاہی کو گرتے ہوئے دیکھا، جس کی حالت زندگی اور موت کے درمیان تھی، تو محمود نے اس کے ہاتھ سے تلوار چھین لی۔ وہ دشمن سپاہی کو بچانے کے لیے دوڑتا ہوا اس کے پاس پہنچا اور اسے پانی دیا۔

یہ واقعہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے سامنے آیا۔ سلطان نے محمود کی اس حرکت کو دیکھا، اور اس کی آنکھوں میں فخر کی جھلک تھی۔ سلطان نے کہا، “یہ ہے سچی فتح۔ نہ صرف میدان جنگ میں، بلکہ دلوں میں رحم اور انسانیت کی فتح۔”

یہ کہانی نہ صرف سلطان صلاح الدین ایوبی کی عظمت کا ایک اور باب تھی، بلکہ یہ ہمیں سکھاتی ہے کہ جنگ کی سچائی اور اخلاق صرف میدان جنگ تک محدود نہیں، بلکہ انسانیت اور ایمان کے راستے پر چلنے میں ہے۔ سچی جیت وہ ہے جو دلوں میں سکون اور انصاف کی بنیاد رکھے، نہ کہ صرف تلواروں سے حاصل کی جائے۔

1 thought on “Sultan Salahuddin ayyubi ke Imaan ki Imtihan ki story in Urdu-سلطان صلاح الدین ایوبی اور “ایمان کا امتحان”

Leave a Comment