Wisdom Story of Sultan Salahuddin Ayyubi and an oppressed girl – Who was the great salahuddin ayyubi? – Who was Salahuddin Ayyubi summary? – What was the character of Salahuddin? – Free Copyright ©️

Wisdom Story of Sultan Salahuddin Ayyubi and an oppressed girl - Who was the great salahuddin ayyubi? - Who was Salahuddin Ayyubi summary? - What was the character of Salahuddin? - Free Copyright ©️

 سلطان صلاح الدین ایوبی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم 

سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ کی جنگی فتوحات کی دن بدن بڑھتی ہوئی کامیابیاں دیکھ کر دشمن سکون سے سونا پاتے لیکن اللہ تعالی نے سلطان کو انتہائی درجے کی عقل ذہانت اور بہادری سے نوازا تھا اللہ تعالی نے سلطان صلاح الدین ایولی رحمت اللہ علیہ کو وہ صلاحیتیں دی تھیں کہ وہ دوست اور دشمن میں فرق سمجھ سکتے تھے سلطان کو معلوم تھا کہ دن بدن بڑھتی ہوئی مسلمانوں کی یہ کامیابیاں دیکھ کر دشمن کبھی بھی برداشت نہیں کر سکتا اور وہ اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر کے ہمیں ہر مقام پر رسوا کرنے کی کوشش کرے گا مصر کا سب سے زیادہ مشہور تجارتی قبیلہ جب سلطان صلاح الدین ایوبی رحمة اللہ علیہ نے فتح کیا کیونکہ یہ قبیلہ ایک سونے کی چڑیا تھی۔

یہ قبیلہ پورے مصر کے تمام بازاروں میں سے سب سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا اس قبیلے کا تجارتی بازار سب سے بڑا تھا اور یہ قبیلہ تجارت کے لحاظ سے سب سے مشہور اور اہم تھا اس کو حاصل کرنا مسلمانوں کے لیے بھی اہم تھا اور دشمن تو اس پر جان چھڑکتے تھے کہ یہ قبیلہ کسی بھی حال میں سلطان کو فتح نہیں کرنے دیں گے لیکن اللہ تعالی کی نصرت نصرت سے سلطان نے چار دنوں کی مسلسل دن رات جنگی کاروائیوں کے بعد اسے فتح کر لیا تھا

دوستو یہ واقعہ انتہائی قیمتی اور سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کی ذہانت اور عقلمندانہ فیصلوں سے بھرا ہوا ہے جسے سن کر آپ کو سلطان صلاح الدین ایوبی کا مسلمانوں کا سلطان ہونے پر فخر محسوس ہو گا آپ سے گزارش ہے کہ اس واقعے کو پور ا سنے تا کہ یہ واقعہ آپ کی ذہنی قابلیت کو بڑھا سکے مصر کے اس قبیلے کو فتح کرنے کے چند دن بعد ہی اس قبیلے میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا اس قبیلہ میں موجود تمام گھروں کے دروازے وغیرہ نہیں تھے یعنی کہ یہ خیمہ نما بنے ہوئے تھے اور ان کی حفاظت کے لیے گھر والے کوئی توجہ نہ دیتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں پچھلی ایک صدی سے کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا تھا جس میں لوگوں کے مال جان کو کسی قسم کا خطرہ ہو لوگوں کے مال مویشی سارا دن ایک دوسرے کے کھیتوں میں چرتے پھرتے تھے اور شام کو اپنے اپنے گھروں میں واپس چلے جاتے تھے اس قبیلے کے لوگ بہت زیادہ ملنسار تھے خاص کر اگر کسی گھر میں شادی ہوتی تو گویا پورا قبیلہ سجایا جاتا اور ایک دوسرے کی غمی میں بھی سب شریک ہوتے تھے

اسی گاؤں میں ایک بڑا زمیندار رہتا تھا جو انسانیت کے لیے درد دل رکھتا تھا لوگوں کے لیے پیار محبت رکھتا تھا اور ہر وقت خوف خدا کی وجہ سے ڈرتا تھا یہ ایک بڑاز میندار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے گاؤں کا سب سے بڑا سر پیچ بھی تھا اس گاؤں کے مسائل حل کرانے میں یہ شخص پیش پیش رہتا تھا اور تمام قبیلے والے اس زمیندار کی بڑی عزت کرتے تھے ایک دفعہ اس بڑے زمیندار یعنی سرپنچ کی بیٹی اپنے مویشیوں کے لیے کھیتوں میں چارہ بنانے گئی سرپنچ کی کافی زیادہ زمین تھی اور ہر جگہ کھیت ہی کھیت تھے جب اس کی بیٹی کھیتوں میں چارہ بنارہی تھی اس وقت ایک عجیب واقعہ پیش آیا یہ واقعہ اپنی نوعیت کا ایک عجیب و غریب واقعہ تھا کسی نامعلوم ادمی نے اچانک پیچھے سے سرپیچ کی بیٹی کی انکھوں پر کپڑا باندھا اور پھر کوئی نشہ آور جڑی بوٹی اس کے ناک ہے لگائی اس سے پہلے کہ اس زمیندار کی بیٹی مڑ کر اس شخص کو دیکھ پاتی وہ بے ہوش ہو کر کھیت میں گر پڑی اس نقاب پوش ملعون شخص نے سرپیچ کی بیٹی کو داغدار کیا کیونکہ کھیت کافی زیادہ تھے اور وہاں کسی کی آمد و رفت کا امکان نہیں تھا کافی دیر بعد سر پیچ کی بیٹی کو جب ہوش آیا تو وہ نیم برہنہ حالت میں تھی اس کے آدھے کپڑے پھٹ چکے تھے اس لڑکی کے اوسان خطا ہو چکے تھے لیکن اسے اس بات کی بھنک لگ چکی تھی کہ اسے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے اس لڑکی کا جسم سر سے لے کر پاؤں تک پینے سے شرابور تھا اور چہرے اور چھاتیوں پر بھیانک نشان موجود تھے یہ سب دیکھ کر وہ ڈر کے مارے کانپ رہی تھی کہ اب کیا کرے پہلے اس کے دل میں خیال آیا کہ اپنی نس کاٹ کر اپنی زندگی ختم کر لے پھر خیال آیا کہ کھیتوں میں موجود بڑے کنویں میں چھلانگ لگا کر خود کشی کر لے لیکن پھر اچانک اپنے باپ یعنی کہ زمیندار کا خیال ایا وہ جانتی تھی کہ اس کا باپ اس کے سہارے ہی زندہ ہے اور و ر وہ اپنے باپ کی اکلوتی اولاد ہے ماں کی وفات کے بعد باپ بیٹی ایک  دوسرے کا سہارا تھے اور میرے باپ نے مجھے بڑے ہی لاڈ پیار سے پالا ہے اگر مجھے کچھ ہو جاتا ہے تو میرا باپ جیتے جی مر جائے گا سر پیچ کی بیٹی اسی سوچ و بچار میں تھی کہ کیا کرے کہ اچانک اس کی نظر زمین پر پڑے چند سونے کے سکوں پر پڑی اور سکوں کے ساتھ ہی کھیت میں موجود پیپل کے ایک بڑے پتے پر ایک تحریر بھی لکھی تھی یہ سب دیکھ کر یہ لڑکی پہلے تو بہت زیادہ ڈر گئی اور چو ر چونک گئی کہ یہ سب کیا ہے پھر ہمت کر کے اس لڑکی نے اس پیپل کے پتے پر لکھی ہوئی تحریر کو پڑھنے کی کوشش کی جس پر لکھا تھا مسلسل ادھا گھنٹے تک مجھے لطف اندوز کرنے کا بہت شکریہ یہ میری زندگی کا یادگار ادھا گھنٹہ تھا جس کو میں مفت میں کیش نہیں کرنا چاہتا اس لیے ان لمحوں کی قیمت بھی ادا کی ہے یہ سونے کے سکے تمہاری قیمت ہے میں تو یہاں سے گزر رہا تھا اس لیے میرے پاس اتنے ہی سونے کے سکے موجود ہیں اگر زندگی میں دوبارہ کبھی موقع ملا تو سونے کے سکوں کا ڈھیر لگا دوں گا یہ سب دیکھ کر لڑکی بہت زیادہ پریشان ہوئے خود کشی کرنے کے با بارے میں سوچ سوچتی تو بھی گئی کبھی خ اپنے باپ کی حالت پر اس کو ترس تا کافی دیر سوچنے کے بعد

اس نے فیصلہ کیا اور گھر کی بجائے قاضی کی عدالت میں جا پہنچی یہ اپنے باپ کا سامنا نہیں کر سکتی تھی اسے معلوم تھا کہ اگر اس کے باپ یعنی کہ سر پیچ نے اسے اس حالت میں دیکھ لیا تو وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا جتنا وہ غیرت و یرت والا شخص شخص اہے وہ تو شرم سے ہی . جائے گا یہ لڑکی اپنا مقدمہ لے کر قاضی صاحب کے پاس پہنچی اور رورو کر کہنے لگی کہ اس گاؤں کی بیٹی کی عزت پر حملہ ہوا ہے آج میرے ساتھ کسی نے بہت بڑا ے میں زندگی اور موت کی کشمکش یا ظلم کیا ہے یا میں ہوں اگر اج کا ا سورج غروب ہونے نے سے سے ۔ پہلے میرا را مجرم نہ پکڑا تو یہ قاضی صاحب آپ کا ایک اور ظلم مجھ پر ہو گا ۔ پر ہو گا قاضی نے جب سرپنچ کی بیٹی کو اس حالت میں دیکھا تو غصے سے لال پیلا ہو گیا پھر قاضی نے اس لڑکی سے سارا ماجرہ پوچھا اور لڑکی نے سارا قصہ بیان کرنے کے بعد وہ پیپل کے پتے پر لکھی تحریر اور سونے کے سکے قاضی صاحب کے سامنے ثبوت کے طور پر حاضر کر دیے قاضی صاحب نے سارا ماجرہ سننے کے بعد اور اس تحریر اور سونے کے سکوں کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس گاؤں کے تمام مردوں کو ابھی اسی وقت عدالت کے حاطے میں جمع کیا جائے جو بھی انے سے انکار کرے اس کے کی گردن کو فوری اڑا دیا جائے سپاہیوں نے حکم پر عمل کیا اور تھوڑی ہی دیر میں گاؤں کے تمام لوگوں کو قاضی صاحب کے سامنے حاضر کر دیا اب اس قبیلے کے تمام مرد اس لڑکی اور قاضی صاحب کے سامنے حاضر ہو چکے تھے پھر قاضی صاحب نے دو ماہر شناسوں کو بلایا جو کہ اس لکھائی کی شناخت کر سکیں ان دونوں شناسوں نے ایک ایک کر کے سب کی لکھائی چیک کی مگر کسی بھی مرد کی ہینڈ رائٹنگ میچ نہ ہوئی اتنے میں کسی نے جا کر اس لڑکی کے کے باپ یعنی اس زمیندار کو اطلاع دی کہ یہ سارا ماجرہ ہو چکا ہے اپ کو خبر تک نہیں وہ بیچارہ پریشانی کے عالم میں دوڑا دوڑا عدالت کے احاطے میں آپہنچا سر پیج بلند اواز میں غصے کی حالت میں چیخ چیخ کر کہنے لگا کہ تم تمام قبیلے والوں کے لیے مر جانے کا مقام ہے میں نے تم لوگوں کے حقوق کی جنگ لڑی جس قوم کی فلاح کے لیے دن رات محنت کی اس کا مجھے تم لوگوں نے یہ صلہ دیا ہے تم نے میری بیٹی کو ہی داغدار کر ڈالا عدالت میں موجود اس قبیلے کے تمام لوگوں نے انتہائی ہمدردی سے کہا کہ یہ جرم کرنے سے پہلے ہم ہلاک نہ ہو جاتے ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا ہم تمہاری بیٹی کو اپنی سگی بہنوں سے سگی بیٹیوں سے بڑھ کر سمجھتے ہیں عدالت میں موجود ایک بوڑھے دانا شخص نے کہا کہ قاضی صاحب سرپنچ کی بیٹی کے ساتھ زیادتی کرنے والا شخص بڑا چالاک تھا ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے اس کے دل میں انتقام کی آگ جل رہی تھی ورنہ وہ پتے پر تحریر نہ لکھتا اور نہ ہی سونے کے سکے رکھ کر جاتا مجھے تو کوئی یہ سازش لگتی ہے قاضی نے سرپنچ سے پوچھا کہ تمہارا کسی سے کوئی جھگڑا تو نہیں جس پر سرپنچ نے بتایا کہ ایسی کوئی بات نہیں قاضی صاحب ہمارا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں نہ ہی میں نے زندگی میں کسی سے کبھی کوئی بحث کی نہ کسی کا حق مارا اور نہ ہی کبھی کسی کا دل دکھا یا سرپنچ نے غصے کی حالت میں قاضی صاحب سے کہا کہ مجھے آج ہی اپنی بیٹی کا مجرم ہر حال میں چاہیے یہ سن کر قاضی بڑا پریشان ہوا اور سپاہیوں کو حکم دیا کہ ان تمام لوگوں کو لے کر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کی عدالت میں پہنچو خیال رہے کہ ان تمام لوگوں میں سے ایک بھی شخص تم نہیں ہونا چاہیے اس قبیلے کے تمام مردوں کے ہجوم کو چاروں طرف سے گھیر کر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کی عدالت میں حاضر کیا گیا پھر

قاضی صاحب نے سلطان کو سارے حالات و واقعات سے آگاہ کیا اور قاضی نے کہا کہ یہ سر پینچ انتہائی نیک آدمی ہے اس پورے قبیلے کو سنبھالنے والا یہی شخص ہے اس نے ہمیشہ اس گاؤں کے لوگوں کی خدمت کی ہے یہ سن کر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ علیہ کو غصہ بھی آرہا تھا اور اس بزرگ پر ترس بھی آ رہا تھا جو کہ انتہائی نیک تھا کافی دیر سوچ بچار کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے ذہن میں ایک ترکیب ائی پھر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے سپاہیوں سے کہا کہ پانی کا ایک بڑا سا بر تن لایا جائے اس پانی کو اگ پر گرم کیا جائے اتنا گرم کیا جائے کہ یہ پانی اگ بن جائے سپاہیوں نے حکم کی تعمیل کی سلطان نے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ جب مجرم کو کھولتے۔ ہوئے پانی میں ڈالا جائے گا تو اپنے گناہوں کا اقرار کیسے نہیں کرے گا عدالت میں موجود سب لوگ خوف سے کانپنے لگے اور سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ سے التجا کرنے لگے کہ خدا کی قسم ہم بے گناہ ہیں ہمارے ساتھ ایسا ظلم مت کرو لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی ان کی باتوں کو نہ سنتے ہوئے اٹلی ترکیب سوچ رہا تھا اتنے میں پانی اگ سے بھی زیادہ گرم ہو چکا تھا جسے کھولتا دیکھ کر عدالت میں موجود تمام لوگ خوف کے مارے ڈر کے رہے تھے اور بھی کے پسینے چھوٹ رہے تھے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے حکم دیا کہ عدالت میں موجود تمام مرد قطار میں کھڑے ہو جائیں سلطان کا حکم یہ علم سنتے ہی گاؤں کے مرد مرد حضرات کی چیخیں نکل نہیں انہیں اپنی ! موت اپنی انکھوں کے سامنے نظرانے لگی ایک بڑی عمر کے اس دیہاتی نے سلطان سے کہا کہ اے سلطان مجھے آپ کھولتے ہوئے پانی کے کڑا میں نہ ڈالیں بلکہ سیدھا اگ میں ہی ڈالیں جب آپ نے ہم سب کو بے گناہ مارنے کا ارادہ کر ہی لیا ہے تو پھر ایسی سزا دیں جو سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے سلطان نے قطار میں کھڑے مردوں کو گننا شروع کیا اور سپاہی سے کہا کہ ہے وہ سونے کے سکے لے او سپاہی سونے کے سکے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے لے کر حاضر ہوا تو سلطان نے انہیں ان سکوں کو کھولتے ہوئے پانی میں ڈالا عدالت میں موجود تمام لوگ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کہ اس عمل سے بہت زیادہ حیران و پریشان ہو رہے ۔ ہو رہے تھے کہ آخر سلطان کرنا کیا چاہتا ہے یہ سب دیکھ کر ان تمام مرد حضرات کو اس بات کا یقین ہو چکا تھا کہ کم از کم ہم تو پانی میں نہیں ڈالے جائیں گے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کافی دیر تک اس گرم پانی میں موجود سونے کے سکوں کی وجہ سے اس پانی کے اوپر بننے والی تہہ کو بڑے غور سے دیکھ رہے ؟ تھے کافی دیر غور و فکر کرنے کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے فورا اپنے سپاہیوں کو حکم دیا۔ کہ اس گاؤں کے جتنے بھی قصاب ہیں ان سب کو عدالت میں حاضر کیا جائے گاؤں والوں نے بتایا کہ اس پورے قبیلے میں صرف تین ہی قصاب ہیں جن میں سے ایک قصائی تو کافی دنوں سے بیمار ہے اور وہ علاج کرانے کے لیے تقریبا دو ماہ پہلے ہی دوسرے شہر میں جا چکا ہے۔ بقیہ دو قصابوں کو سپاہی لے کر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کی عدالت میں حاضر ہوئے سلطان نے پہلے ان سے پوچھا کہ جب سارا گاؤں یہاں پر اکٹھا ہوا ہے تو تم دونوں کیوں نہیں آئے ایک قصائی بولا کہ آج میں نے گوشت کا پھٹا نہیں لگایا کیونکہ میں اپنی بیٹی سے ملنے گیا ہوا تھا جبکہ دوسرے قصائی نے کہا کہ مجھے کچھ خبر نہیں کہ کیا معاملہ ہوا ہے پھر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ علیہ نے ان دونوں کو اگے آنے کا حکم دیا سلطان نے اونچی اواز میں گاؤں والوں سے پوچھا کہ آج ان دونوں نے دکان کھولی تھی یا نہیں گاؤں والوں نے بتایا کہ ایک دکان تواج بند تھی جبکہ دوسری دکان کھلی تھی اور یہ سارادن گوشت فروخت کرتا رہا ہے پھر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ جس ادمی کی دکان راج کھلی تھی اس کو پکڑ کر زندان میں ڈالو اور اس کو اس وقت تک مارتے رہو جب تک یہ اپنا جرم قبول نہ کرلے اگر پھر بھی یہ اپنا جرم قبول نہ کرے تو اس کڑاہا کے اگ جیسے پانی میں اس کو ڈال کر اس کا جرم قبول کروایا جائے گا ابھی سپاہی اس قصائی کو لے کر زندان کی طرف مارنے کے لیے جارہے تھے اس سے پہلے ہی اس نے اپنا جرم قبول کر لیا اور سلطان سے اپنی زندگی بخشنے کی معافی مانگنے لگا یہ دیکھ کر تمام قبیلے کے مرد حضرات بڑے حیران ہوئے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس قدر اسانی سے مجرم کو کیسے پکڑا کیا اس سے بھی زیادہ حیرانگی قبیلے کے تمام مرد حضرات کو اس پر تھی کہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی شناخت آخر کیسے کی سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ جب میں نے ان سکوں کو کھولتے ہوئے پانی میں ڈالا تو پانی پر گوشت کی چکنائی کی ایک تہ بن گئی بس مجھے سمجھ اگیا کہ یہ کام ایسا شخص کر سکتا ہے جس نے یا تو کسی جانور کو ذبح کیا ہے یا یہ کام کسی قصائی کا ہے جو گوشت فروخت کرتا ہے تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ گاؤں میں اج ایک اسی شخص نے جانور ذبح کیا ہے اور سارا دن پھٹے پر بیٹھ کر گوشت فروخت کرتا رہا ہے تو میرا سارا شک اس قصائی پر گیا چونکہ دوسر ا قصائی جو بیمار ہے۔ وہ دوسرے شہر گیا ہے اور تیسر ا قصائی کا آج پھٹا بند تھا جبکہ اس قصائی کی دکان کھلی تھی تو اسی نے ہی سرپیچ کی بیٹی کے ساتھ کھیت میں زیادتی کی ہے جب سلطان نے اس قصائی سے حقیقت پوچھی تو اس نے کہا کہ مجھے اپ کے مخالف بادشاہ نے جاسوسی کرنے کے لیے آپ کی سلطنت میں بھیجا ہے اور مجھ سے کہا تھا کہ تم سرپیچ کی بیٹی کے ساتھ زیادتی کرو اور اس سے سرپنچ کی عزت بھی خراب ہو گی اور سر پینچ کا شک جائے گا اپنے گاؤں والوں کے مردوں پر تو ان میں تنازعہ کھڑا ہو جائے گا اور یہ لوگ اپس میں لڑنا جھگڑنا شروع کر دس گے یہ سنتے ہی سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے ذہن میں ہے دشمن حکمران کا سارا پرو پیگنڈا سمجھ اگیا پھر اس قصائی نے کہا کہ میں نے سرپیچ کی بیٹی کو کھیت میں چارہ بنانے کے لیے جاتے دیکھا اور یہ اکیلی تھی تو پھر میں اس کا پیچھا کرنے لگا اور انہی گوشت والے ہاتھوں سے سکے جیب سے نکالے تھے اب تو اس نے اپنے جرم کا اعترافی بیان بھی دے دیا پھر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس دشمن حکمران کے بھیجے ہوئے جاسوس کی کھٹیا حرکت کی وجہ سے اس کے جرم کی عبرت ناک سزاسنا دی پھر سپاہیوں نے پکڑ کر اسی کھولتے ہوئے پانی کے کڑا میں اس کو ڈال دیا سب دیہاتیوں نے اپنی انکھوں سے اسے تڑپتے ہوئے دیکھا اور اس کی چھینیں سنیں اس کے بعد اس پورے قبیلے میں ایسا واقعہ دوبارہ بھی پیش نہ اسکا سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ نے دیکھا کہ سرپنچ بہت زیادہ پریشان ہیں اور اس کا چہرہ لڑکا ہوا ہے تو سلطان نے سر پیچ سے دریافت کیا کہ تم کیوں پریشان ہو اب تو تمہارا مجرم پکڑا گیا ہے اور وہ اپنے کیے کا انجام بھی ہے بھگت رہا ہے منشی نے کہا کہ میں اپنی بیٹی کے بارے میں بہت ز زیادہ پریشان ہو کہ ہو گیا ہوں کیونکہ یہ اس واقعے کے بعد میری بیٹی کی منگنی ٹو منگنی ٹوٹ چکی تھی او اور میری اس د اس داغدار ربیتی سے اب کون شادی کرے گا نہ میرے لیے عمر بھر کا سب سے بڑا بوجھ بن چکا ہے جو بھی بھی میری کمر کو سیدھا نہیں ہونے دے گا اس زمیندار کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے

سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک وزیر کے ساتھ اس کی بیٹی کا رشتہ طے کر دیا اور شرط رکھی کہ اسی وقت رخصتی ہو گی سرپنچ نے عزتکے ساتھ اپنی بیٹی کو اپنے گھر سے رخصت کیا اور اس کی بیٹی نے نئی زندگی کا کامیاب آغاز کیا اس وقت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخی جملے ادا کیے کہ اچھے برے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں لیکن جہاں قانون کی حقیقی حکمرانی ہوتی ہے وہاں ان لوگوں کی یعنی کہ مجرموں کی جگہ دن بدن تنگ ہوتی جاتی ہے انم ایک دن سلامن ایسا آتا ہے کہ ایسے لوگ ناپید ہو جاتے ہیں یا – تو وہ اپنے کیے کی سزا بھگت کر دنیا سے چلے جاتے ہیں یا وہ اپنے آپ کو سدھار کر اچھے انسان بن جاتے ہیں سلطان صلاح الدین ایوبی کا یہ جملہ سونے میں تولنے کے تا ہے مترادف ہے کہ معاشرہ کفر کے ۔ ساتھ تو زندہ رہ سکتا۔ لیکن نہ انصافی کے ساتھ کبھی زندہ نہیں رہ سکتا

Leave a Comment