پہلی رات قبر میں
اندھیری رات تھی۔ ہوا میں خنکی کا احساس تھا، اور قبرستان کے گوشے میں ایک نئی قبر تازہ مٹی سے بند کی گئی تھی۔ لوگ دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر آہستہ آہستہ وہاں سے رخصت ہو گئے تھے۔ قبر کے اندر عبداللہ اکیلا لیٹا ہوا تھا، زندگی سے موت کی طرف کے سفر کی پہلی منزل پر۔
عبداللہ ایک عام انسان تھا، نہ بہت نیک، نہ بہت بد۔ اس کی زندگی میں اچھے اور برے دونوں طرح کے اعمال تھے۔ وہ نماز پڑھتا تھا، لیکن کبھی کبھار۔ وہ صدقہ دیتا تھا، لیکن دل کی پوری سچائی کے ساتھ نہیں۔ اس کی زندگی دنیاوی دوڑ دھوپ میں گزر رہی تھی، اور آخرت کی تیاری کے لیے وقت ہمیشہ “بعد میں” رکھا ہوا تھا۔
قبر کی خاموشی
جیسے ہی قبر بند ہوئی، عبداللہ کو ایسا محسوس ہوا جیسے دنیا کی تمام آوازیں بند ہو گئیں۔ ایک گہری خاموشی نے اسے گھیر لیا۔ اسے اپنی تنہائی کا شدت سے احساس ہوا۔ وہ سوچنے لگا، “کیا یہ وہی وقت ہے جس کے بارے میں سنا کرتا تھا؟ کیا واقعی میرا امتحان شروع ہو گیا؟”
فرشتوں کی آمد
اچانک، قبر میں ایک عجیب سی روشنی نمودار ہوئی۔ دو فرشتے، منکر اور نکیر، اس کے سامنے آئے۔ ان کے چہرے جلال سے بھرے ہوئے تھے، اور ان کی آواز گونج دار تھی۔
فرشتوں نے پہلا سوال کیا:
“تمہارا رب کون ہے؟”
عبداللہ نے جواب دینے کی کوشش کی، لیکن اس کی زبان لڑکھڑانے لگی۔ اسے اللہ کا نام یاد تھا، لیکن دل کی گہرائی سے اس پر ایمان اور عمل کمزور تھا۔
پھر دوسرا سوال ہوا:
“تمہارا دین کیا ہے؟”
عبداللہ کو پسینہ آنے لگا، حالانکہ قبر کی مٹی ٹھنڈی تھی۔ اسے جواب معلوم تھا، لیکن اس کے اعمال نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔
تیسرا سوال آیا:
“تمہارے نبی کون ہیں؟”
عبداللہ نے لرزتے ہوئے جواب دیا، “محمد ﷺ۔” لیکن اس کے دل میں شرمندگی تھی کہ اس نے ان کی سنت کو کتنا کم اپنایا تھا۔
اعمال کی صورت
فرشتے سوالات کے بعد واپس چلے گئے، اور عبداللہ اکیلا رہ گیا۔ اچانک، اس کے اعمال مجسم صورت میں اس کے سامنے آ گئے۔ اس کے نیک اعمال ایک کمزور اور روشنی سے بھرے انسان کی شکل میں تھے، جو بہت چھوٹے اور دھیمے تھے۔ جبکہ اس کے برے اعمال خوفناک اور اندھیرے میں لپٹے ہوئے دیو کی طرح تھے۔
عبداللہ نے ان دونوں کو دیکھ کر رونا شروع کر دیا۔ وہ نیک اعمال سے کہنے لگا، “تم اتنے کمزور کیوں ہو؟” نیک اعمال نے جواب دیا، “تم نے مجھے وقت اور توجہ نہیں دی۔ تم نے مجھے صرف اپنی آسانی کے وقت یاد کیا، لیکن مکمل دل سے نہیں اپنایا۔”
قبر کی تنگی
کچھ ہی لمحوں میں قبر تنگ ہونے لگی۔ عبداللہ کو یوں محسوس ہوا جیسے دیواریں اس کے جسم کو دبا رہی ہیں۔ وہ چیخنے لگا، “مجھے ایک اور موقع دو! میں اپنی زندگی کو بدل دوں گا! میں اچھے اعمال کروں گا!” لیکن اب وقت ختم ہو چکا تھا۔
سبق
عبداللہ کی پہلی رات قبر میں اس کے لیے ایک کڑوا سبق تھی، لیکن اب واپسی ممکن نہیں تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ دنیا میں جتنی زندگی ملی تھی، وہ کتنی قیمتی تھی، اور اسے صحیح طور پر استعمال کرنا چاہیے تھا۔
اختتام
یہ کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زندگی ایک امانت ہے، اور قبر کی پہلی رات ہماری آخری زندگی کا آغاز ہے۔ ہمیں اپنی زندگی کو اس انداز میں گزارنا چاہیے کہ جب ہم قبر میں جائیں، تو ہمارے اعمال ہمارے لیے روشنی اور سکون کا ذریعہ بنیں، نہ کہ تنگی اور خوف کا۔ اللہ ہمیں اس رات کے امتحان کے لیے کامیاب کرے۔ آمین۔