Nikah-e-Mut’ah Ki Haqiqat aur Is Ki Juz Aur Haram Hone Par Ikhtilafat

نکاحِ متعہ کی حقیقت | نکاحِ متعہ کیا ہے؟

نکاحِ متعہ ایک ایسا موضوع ہے جو اسلامی معاشرتی اور فقہی بحثوں میں ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔ یہ موضوع خاص طور پر شیعہ مسلمانوں میں زیادہ مشہور ہے، جبکہ سنی مسلمانوں میں اس پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ اس مضمون میں ہم نکاحِ متعہ کی حقیقت، اس کے اصول و قواعد، اور اس سے جڑے مسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے تاکہ قارئین کو اس موضوع کی درست سمجھ حاصل ہو سکے اور اس سے متعلق مختلف پہلوؤں پر ان کی سوچ کو گہرا کیا جا سکے۔

نکاحِ متعہ کیا ہے؟

نکاحِ متعہ ایک خاص قسم کا عقد ہے جو اسلامی تاریخ میں شروع ہوا۔ اس میں مرد اور عورت ایک مخصوص مدت کے لیے شادی کے رشتہ میں بندھتے ہیں، اور یہ رشتہ وقتی ہوتا ہے۔ اس نکاح کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں طلاق کا عمل خود بخود طے ہوتا ہے جب مقررہ مدت ختم ہو جاتی ہے، اور اس دوران دونوں کے حقوق اور واجبات ایک دوسرے کے لیے محدود ہوتے ہیں۔

نکاحِ متعہ کی تاریخ

نکاحِ متعہ کی ابتداء دورِ اسلام میں ہوئی۔ جب اسلام کی ابتدائی تعلیمات آئیں، تو اس وقت کچھ معاشرتی مسائل تھے جن میں ایک طرف عورتوں کے حقوق کا تحفظ تھا اور دوسری طرف جنگوں اور سفر کی وجہ سے مردوں کی ضرورتیں پوری کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ نکاحِ متعہ کا مقصد ان مسائل کا حل تھا۔ تاہم، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں یہ نکاح ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود، اس پر مختلف مکاتب فکر کی مختلف آراء رہی ہیں۔

نکاحِ متعہ کے اصول و ضوابط

نکاحِ متعہ میں کچھ خاص اصول اور شرائط ہوتی ہیں:

  1. مدت کا تعین: اس نکاح میں دونوں فریقین (مرد اور عورت) ایک مخصوص مدت کے لیے اس عقد میں بندھتے ہیں۔ مدت کی حد کو طے کرنا ضروری ہے۔

  2. مہر: جیسے عام نکاح میں مہر طے کیا جاتا ہے، ویسے ہی نکاحِ متعہ میں بھی مہر طے کیا جاتا ہے، جو نکاح کے وقت متفقہ ہوتا ہے۔

  3. طلاق: نکاحِ متعہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ جب مدت ختم ہو جاتی ہے تو یہ نکاح خود بخود ختم ہو جاتا ہے، اور کوئی طلاق دینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

  4. حقوق و واجبات: اس نکاح میں مرد اور عورت کے حقوق اور واجبات محدود ہوتے ہیں۔ دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ کچھ مخصوص حقوق کی اجازت ہوتی ہے، جیسے کہ جنسی تعلقات اور مخصوص مدت تک رہنا۔

  5. ولایت: نکاحِ متعہ کے معاملے میں بعض اوقات عورت کو ولی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی، جو اس کو عام نکاح کے مقابلے میں ایک الگ حیثیت دیتا ہے۔

نکاحِ متعہ کی اہمیت اور اس کے فوائد

نکاحِ متعہ کا اصل مقصد معاشرتی و اخلاقی مسائل کو حل کرنا تھا۔ اس کے فوائد میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

  1. جنسی ضروریات کی تکمیل: سفر میں یا جنگ میں ہوتے ہوئے مردوں کے لیے نکاحِ متعہ ایک ایسا طریقہ ہے جس کے ذریعے وہ اپنی جنسی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں۔

  2. عورتوں کی معاشی اور اجتماعی حفاظت: بعض اوقات ایسی عورتیں جو اپنے شوہر سے جدا ہو چکی ہوتی ہیں یا جن کو معاشی تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے، ان کے لیے نکاحِ متعہ ایک عارضی حل فراہم کرتا ہے۔

  3. معاشرتی ہم آہنگی: اس نکاح کے ذریعے کچھ معاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں، جیسے کہ بے اولادی یا تنہائی، اور یہ طریقہ بعض اوقات لوگوں کے لیے عزت اور وقار کا سبب بن سکتا ہے۔

نکاحِ متعہ پر مختلف مکاتب فکر کی آراء

نکاحِ متعہ پر مختلف اسلامی مکاتب فکر میں اختلاف پایا جاتا ہے:

  • شیعہ مسلمان: شیعہ مسلمان اس نکاح کو جائز سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک یہ ایک وقت کی شادی ہے جو کہ ایک طرح کا عارضی رشتہ ہوتا ہے۔ ان کے عقیدہ کے مطابق، یہ نکاح کسی مخصوص ضرورت کی بنا پر جائز اور ضروری ہو سکتا ہے۔

  • سنی مسلمان: سنی مسلمان عموماً نکاحِ متعہ کو ناجائز سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک یہ نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ ان کے مطابق، اس کا مقصد صرف عارضی فائدہ حاصل کرنا تھا، جو کہ آج کے دور میں غیر اخلاقی ہے۔

نکاحِ متعہ کے اخلاقی پہلو

نکاحِ متعہ کے بارے میں اخلاقی سوالات بھی اٹھائے جاتے ہیں۔ بعض لوگ اسے ایک عارضی رشتہ سمجھتے ہیں جو کہ انسان کے جذباتی اور اخلاقی پہلوؤں سے متصادم ہو سکتا ہے۔ چونکہ اس نکاح میں طلاق کا عمل خود بخود ہوتا ہے، اس لیے اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ رشتہ اتنی مضبوط نہیں ہوتا جتنا کہ ایک مستقل نکاح۔

نتیجہ

نکاحِ متعہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر مختلف مکاتب فکر کی اپنی اپنی آراء ہیں۔ یہ ایک متنازعہ مسئلہ ہے اور اس کی حقیقت اور اس کی اجازت یا ممنوعیت کے بارے میں مختلف عقائد ہیں۔ تاہم، اس نکاح کے بارے میں غور و فکر کرنا ضروری ہے تاکہ ہم اس کی حقیقت اور اس کے اثرات کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس موضوع پر تحقیق کرے اور اپنی عقلی اور اخلاقی حدود کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی رائے قائم کرے۔

اگرچہ نکاحِ متعہ کا مقصد معاشرتی مسائل کا حل تھا، لیکن اس کے استعمال میں احتیاط اور ذمہ داری ضروری ہے۔ یہ ضروری ہے کہ اس کے ہر پہلو کو سمجھا جائے اور اس کے فوائد و نقصانات پر غور کیا جائے تاکہ انسانیت کی فلاح اور اس کے اخلاقی اقدار کا تحفظ کیا جا سکے۔

کیا نکاحِ متعہ واقعی حرام ہے؟

نکاحِ متعہ ایک ایسا موضوع ہے جو مختلف اسلامی مکاتب فکر میں بحث و تنقید کا باعث بنا رہا ہے۔ خاص طور پر سنی مسلمانوں اور شیعہ مسلمانوں کے درمیان اس پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ بعض لوگ نکاحِ متعہ کو جائز سمجھتے ہیں، جبکہ بعض اسے حرام قرار دیتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم نکاحِ متعہ کے جواز یا حرمت کے بارے میں تفصیل سے بات کریں گے، تاکہ قارئین کو اس موضوع کی حقیقت اور اس کے جواز یا حرام ہونے کے بارے میں مکمل معلومات حاصل ہو سکیں۔

نکاحِ متعہ کیا ہے؟

نکاحِ متعہ ایک عارضی اور وقتی نوعیت کا نکاح ہوتا ہے جس میں مرد اور عورت ایک طے شدہ مدت کے لیے شادی کے بندھن میں بندھتے ہیں۔ اس نکاح کی خاصیت یہ ہے کہ یہ نکاح ایک مخصوص مدت تک محدود ہوتا ہے، اور مدت کے ختم ہوتے ہی یہ نکاح خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ اس میں مرد اور عورت دونوں کی رضامندی شامل ہوتی ہے، اور طلاق کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ نکاح کی مدت پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے۔

نکاحِ متعہ کے جواز اور حرمت پر مختلف آراء

نکاحِ متعہ کے جواز یا حرمت پر مختلف فقہی مکاتب فکر کی اپنی اپنی آراء ہیں۔ اس کی جوازیت یا حرمت کو سمجھنے کے لیے ہمیں اسلام کے مختلف مکاتب فکر کے نظریات کو جاننا ضروری ہے۔

1. شیعہ مسلمانوں کا نقطہ نظر

شیعہ مسلمان نکاحِ متعہ کو جائز سمجھتے ہیں اور ان کے مطابق یہ نکاح اسلام میں ایک مستحب عمل تھا، جو کہ پہلے دور میں مسلمانوں کے درمیان رائج تھا۔ شیعہ عقیدہ کے مطابق، نکاحِ متعہ کا مقصد ایک عارضی شادی کی صورت میں انسان کی جنسی ضروریات کو پورا کرنا تھا اور اس میں کسی قسم کی حرج یا غلط بات نہیں تھی۔

شیعہ مسلمانوں کے مطابق، یہ نکاح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں جائز تھا، اور بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اس پر پابندی لگائی گئی۔ اس کے باوجود، شیعہ اس پر سختی سے ایمان رکھتے ہیں کہ نکاحِ متعہ کی اجازت اصل میں اسلام کی تعلیمات میں شامل ہے اور اسے کسی خاص حالات میں جائز سمجھا جا سکتا ہے۔

2. سنی مسلمانوں کا نقطہ نظر

سنی مسلمانوں کے مطابق، نکاحِ متعہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ممنوع قرار دیا گیا تھا اور اس کے بعد سے یہ حرام سمجھا جاتا ہے۔ سنی فقہاء کا کہنا ہے کہ نکاحِ متعہ اصل میں ایک عارضی فائدہ حاصل کرنے کا ذریعہ تھا اور اس کا مقصد عارضی جنسی تعلقات کا قیام تھا، جو کہ اسلامی اخلاقی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔

سنی علماء کا موقف یہ ہے کہ نکاحِ متعہ کے ذریعے شادی کی حقیقت مجروح ہوتی ہے کیونکہ یہ رشتہ عارضی اور محدود ہوتا ہے، اور اس کے نتیجے میں طلاق یا ختم ہونے کے بعد ایک استحکام نہیں ہوتا۔

نکاحِ متعہ کی حرمت کے دلائل

سنی علماء نے نکاحِ متعہ کو حرام قرار دینے کے لیے چند اہم دلائل پیش کیے ہیں:

  1. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے دوران نکاحِ متعہ کو حرام قرار دیا تھا۔ سنی علماء کا ماننا ہے کہ حضرت عمر نے اس نکاح کو حرام قرار دینے کا فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ یہ اسلامی معاشرتی اخلاقیات کے خلاف تھا اور اس کے ذریعے لوگوں میں عارضی تعلقات کی عادت پڑ رہی تھی جو کہ اس وقت کے معاشرتی نظام کے لیے مناسب نہیں تھی۔

  2. قرآن و حدیث سے دلائل: سنی علماء کا کہنا ہے کہ قرآن و حدیث میں نکاحِ متعہ کا کہیں ذکر نہیں کیا گیا اور اس کے بارے میں کوئی واضح جواز نہیں ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ “نکاحِ متعہ تمہیں حرمت میں دیا گیا ہے” (صحیح مسلم)۔ اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عمر کے دور میں یہ نکاح حرام قرار پایا تھا اور اس کے بعد اس کی اجازت نہیں رہی۔

  3. دائم نکاح کی اہمیت: سنی مسلمان اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اسلام میں نکاح کا مقصد صرف جنسی تعلقات نہیں، بلکہ ایک مضبوط اور مستقل رشتہ قائم کرنا ہوتا ہے۔ نکاحِ متعہ کی عارضیت اس مقصد سے متصادم ہے کیونکہ اس میں رشتہ محض وقتی ہوتا ہے۔

نکاحِ متعہ کے جواز کے دلائل

شیعہ مسلمان نکاحِ متعہ کو جائز سمجھنے کے کئی دلائل پیش کرتے ہیں:

  1. حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت: شیعہ عقیدہ کے مطابق، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دور میں نکاحِ متعہ کی اجازت دی تھی اور اس کے ذریعے مسلمانوں کو عارضی طور پر جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دی تھی۔ وہ اسے معاشرتی ضرورتوں کے تحت جائز سمجھتے ہیں۔

  2. قرآن میں نکاحِ متعہ کا ذکر: شیعہ علماء کا کہنا ہے کہ قرآن مجید کی سورہ نساء کی آیت 24 میں نکاحِ متعہ کا ذکر ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے “فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ” (جو عورتوں سے تم نے استمتاع کیا) کہا ہے، جس سے نکاحِ متعہ کی اجازت ملتی ہے۔

  3. اجتماعی ضرورت: شیعہ مسلمان یہ بھی کہتے ہیں کہ نکاحِ متعہ ایک اجتماعی ضرورت کے طور پر رائج ہوا تھا تاکہ بے روزگار مردوں یا ان افراد کے لیے جن کی ازدواجی ضروریات پوری نہیں ہو رہی تھیں، ایک حل فراہم کیا جا سکے۔

نتیجہ

نکاحِ متعہ کی حرمت یا جواز پر مختلف اسلامی مکاتب فکر کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔ سنی مسلمان اس نکاح کو حرام سمجھتے ہیں کیونکہ وہ اسے عارضی اور غیر اخلاقی سمجھتے ہیں، جبکہ شیعہ مسلمان اسے جائز اور ضروری سمجھتے ہیں۔

اس موضوع پر زیادہ تفصیل سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگ اس کی حقیقت اور اس کے اثرات کو سمجھ سکیں۔ ہر مسلمان کو اس موضوع پر تحقیق کرنی چاہیے اور اپنے عقلی و اخلاقی معیار پر فیصلہ کرنا چاہیے۔ یہ ایک پیچیدہ اور حساس موضوع ہے جس پر مختلف زاویوں سے نظر ڈالی جا سکتی ہے۔

کیا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکاحِ متعہ کیا تھا؟

نکاحِ متعہ ایک ایسا موضوع ہے جو اسلامی تاریخ اور فقہ میں اہمیت رکھتا ہے اور مختلف مکاتب فکر میں اس پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ اس موضوع پر سب سے زیادہ بحث اس وقت ہوتی ہے جب سوال کیا جاتا ہے: “کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکاحِ متعہ کیا تھا؟” اس سوال کا جواب نہ صرف اسلامی معاشرتی قوانین اور اخلاقی اصولوں کی سمجھ بوجھ میں مددگار ہوتا ہے بلکہ یہ اسلامی تاریخ کو بھی واضح کرتا ہے۔ اس مضمون میں ہم اس سوال کا تفصیل سے جائزہ لیں گے تاکہ قارئین کو اس موضوع کے مختلف پہلوؤں کی صحیح معلومات حاصل ہو سکیں۔

نکاحِ متعہ کیا ہے؟

نکاحِ متعہ ایک عارضی اور وقتی نوعیت کا نکاح ہے جس میں مرد اور عورت ایک طے شدہ مدت کے لیے شادی کے بندھن میں بندھتے ہیں۔ اس نکاح کی خاصیت یہ ہے کہ یہ ایک مخصوص مدت تک محدود ہوتا ہے اور مدت ختم ہونے پر یہ خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ اس میں طلاق کا عمل ضروری نہیں ہوتا کیونکہ نکاح کی مدت پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے۔

نکاحِ متعہ کا مقصد بعض اوقات عارضی جنسی تعلقات کی تکمیل ہوتا ہے، خاص طور پر ان حالات میں جب سفر یا جنگ کی صورت میں انسان کی جنسی ضروریات پوری کرنا مشکل ہوتا ہے۔

کیا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکاحِ متعہ کیا؟

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں نکاحِ متعہ کی اجازت تھی اور کچھ روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض اوقات اس نکاح کو رائج بھی کیا تھا۔ تاہم، اس پر مختلف مکاتب فکر کی مختلف آراء ہیں، اور بعض کا ماننا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نکاح مخصوص حالات میں کیا۔

1. نکاحِ متعہ کی اجازت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں نکاحِ متعہ کو جائز سمجھا جاتا تھا، اور بعض روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی کے مختلف اوقات میں اس نکاح کی اجازت دی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منسوب روایات کے مطابق، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفر یا جنگ کے دوران نکاحِ متعہ کی اجازت دی تھی تاکہ لوگوں کی جنسی ضروریات پوری ہو سکیں اور غیر ضروری تعلقات سے بچا جا سکے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: “ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزوہ خیبر کے دوران نکاحِ متعہ کیا تھا۔” (صحیح مسلم)

اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں نکاحِ متعہ جائز تھا اور اس کا مقصد عارضی جنسی تعلقات کو قانونی حیثیت دینا تھا تاکہ لوگوں کے لیے فواحش سے بچنا آسان ہو۔

2. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں نکاحِ متعہ پر پابندی عائد کر دی گئی۔ حضرت عمر نے اپنی خلافت کے دوران یہ فیصلہ کیا کہ نکاحِ متعہ کو ممنوع قرار دیا جائے تاکہ لوگ عارضی تعلقات کے بجائے مستقل اور مستحکم نکاح کو ترجیح دیں۔ حضرت عمر کا کہنا تھا: “نکاحِ متعہ کو اللہ نے جائز کیا تھا، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب اسے روکا جائے کیونکہ اس کے ذریعے لوگوں کی اخلاقیات متاثر ہو رہی تھیں۔”

3. سنی مسلمانوں کا موقف

سنی مسلمان عموماً اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں نکاحِ متعہ کی اجازت تھی، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اسے ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ سنی علماء کا کہنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکاحِ متعہ کی اجازت ایک عارضی ضرورت کے تحت دی تھی، جیسے کہ جنگ یا سفر کے دوران جنسی تعلقات کے قانونی طریقے کی ضرورت تھی، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کے بعد اس پر پابندی لگانا ضروری تھا تاکہ مسلمانوں کے درمیان صحیح اور مستقل ازدواجی تعلقات قائم رہیں۔

4. شیعہ مسلمانوں کا موقف

شیعہ مسلمان اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں نکاحِ متعہ جائز تھا اور اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں پابندی لگائی گئی۔ ان کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکاحِ متعہ کو ایک عارضی ضرورت کے طور پر جائز قرار دیا تھا تاکہ مسلمانوں کو فواحش اور غیر اخلاقی تعلقات سے بچایا جا سکے۔

شیعہ علماء کا کہنا ہے کہ حضرت عمر کے فیصلے کے بعد بھی نکاحِ متعہ کا جواز موجود ہے اور اس پر عمل کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر ایسے حالات میں جب کسی شخص کو جنسی تعلقات کی ضرورت ہو لیکن وہ مستقل نکاح کرنے کی حالت میں نہ ہو۔

نکاحِ متعہ کی جوازیت اور اس کے اثرات

نکاحِ متعہ کو جائز قرار دینے والے مسلمان اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ نکاح ایک عارضی ضرورت کے طور پر مسلمانوں کے لیے جائز تھا اور اس کا مقصد فواحش اور زنا سے بچنا تھا۔ اس کے ذریعے ایک قانونی اور اخلاقی طریقے سے جنسی تعلقات قائم کیے جا سکتے تھے۔

تاہم، نکاحِ متعہ پر پابندی لگانے والے مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ اس نکاح سے لوگوں کے اخلاقی معیار متاثر ہو رہے تھے اور اس سے معاشرتی استحکام میں خلل پڑ رہا تھا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مستقل نکاح اسلام کی اصل تعلیمات کے مطابق ہے اور اسی پر زور دیا جانا چاہیے۔

نتیجہ

نکاحِ متعہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر مختلف اسلامی مکاتب فکر میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں اس نکاح کی اجازت تھی، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اس پر پابندی لگا دی گئی۔ سنی مسلمان اس نکاح کو حضرت عمر کے فیصلے کے بعد حرام سمجھتے ہیں، جبکہ شیعہ مسلمان اس کو جائز سمجھتے ہیں۔

اس موضوع پر غور و فکر کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نکاحِ متعہ ایک عارضی اور وقت کی ضرورت کے طور پر جائز تھا، مگر اس کے اثرات اور اس کے استعمال کے بارے میں مختلف آراء موجود ہیں۔ اس کے جواز یا حرمت کے حوالے سے مسلمانوں کو اپنی سوچ کو کھلا اور متوازن رکھنا چاہیے تاکہ ہم اسلامی معاشرتی اصولوں کو سمجھ سکیں اور صحیح فیصلہ کر سکیں۔

آج کے دور میں نکاحِ متعہ کی اجازت: ایک جائزہ

نکاحِ متعہ ایک متنازعہ اور پیچیدہ موضوع ہے جس پر مختلف مکاتب فکر کے مسلمانوں کی آراء مختلف ہیں۔ اس موضوع کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ یہ اسلام کے معاشرتی اور اخلاقی اصولوں سے براہ راست متعلق ہے۔ اس مضمون میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ آیا آج کے دور میں نکاحِ متعہ کی اجازت ہے یا نہیں، اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ کیا ہمیں اس پر عمل کرنا چاہیے یا اسے ایک ممنوع عمل سمجھنا چاہیے؟

نکاحِ متعہ کیا ہے؟

نکاحِ متعہ ایک عارضی شادی ہے جس میں مرد اور عورت ایک مخصوص مدت کے لیے شادی کے بندھن میں بندھتے ہیں۔ اس نکاح میں مدت کا تعین پہلے سے طے ہوتا ہے اور جب وہ مدت مکمل ہو جاتی ہے، تو نکاح خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ اس میں طلاق کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ نکاح کی مدت پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے۔

نکاحِ متعہ کا مقصد بعض اوقات جنسی تعلقات کی جائز تکمیل ہوتا ہے، خاص طور پر ایسی صورتوں میں جب کسی شخص کے لیے مستقل نکاح کرنا ممکن نہ ہو۔ یہ نکاح ابتدائی طور پر مسلمانوں کے لیے مخصوص حالات میں جائز تھا، جیسے کہ جنگ یا سفر کے دوران جب افراد کی جنسی ضروریات پوری کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔

آج کے دور میں نکاحِ متعہ: کیا یہ جائز ہے؟

آج کے دور میں نکاحِ متعہ پر مختلف مکاتب فکر کی مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ اس کے جواز یا حرمت کے حوالے سے دنیا بھر کے مسلم علما میں اختلافات موجود ہیں۔ آئیے، اس کی حقیقت پر مختلف زاویوں سے غور کرتے ہیں۔

1. شیعہ مسلمانوں کا موقف

شیعہ مسلمانوں کے مطابق نکاحِ متعہ کا جواز آج بھی موجود ہے۔ ان کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں نکاحِ متعہ کو جائز قرار دیا گیا تھا، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اس پر پابندی لگائی گئی تھی۔ شیعہ علما کا ماننا ہے کہ اس نکاح کی ضرورت آج بھی موجود ہے، اور اس کا مقصد جنسی تعلقات کو ایک قانونی اور اخلاقی طریقے سے پورا کرنا ہوتا ہے۔

شیعہ مسلمانوں کے مطابق، نکاحِ متعہ کو مخصوص حالات میں جائز قرار دیا جا سکتا ہے، جیسے کہ اس وقت جب کسی فرد کو ازدواجی زندگی گزارنے کی اجازت نہ ہو یا وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے عارضی تعلق قائم کرنا چاہے۔

2. سنی مسلمانوں کا موقف

سنی مسلمانوں کی اکثریت کے مطابق نکاحِ متعہ آج کے دور میں حرام ہے۔ سنی علما کا کہنا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اس پر پابندی عائد کی گئی تھی اور اس کے بعد سے اس نکاح کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔ سنی مسلمانوں کا ماننا ہے کہ اس نکاح کے ذریعے عارضی تعلقات قائم کیے جاتے ہیں جو کہ اسلامی معاشرتی اصولوں کے خلاف ہیں۔

سنی علما کے مطابق، نکاحِ متعہ کے بجائے ایک مستقل نکاح کو ترجیح دینی چاہیے، کیونکہ یہ رشتہ نہ صرف قانونی ہے بلکہ اس میں دونوں فریقین کے حقوق اور واجبات بھی واضح اور محفوظ ہوتے ہیں۔ مستقل نکاح میں دونوں افراد کی زندگی کا استحکام اور سکون شامل ہوتا ہے، جو کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔

3. آج کے معاشرتی اور اخلاقی اثرات

آج کے دور میں معاشرتی مسائل اور اخلاقی چیلنجز نے نکاحِ متعہ کے جواز پر مزید سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ایک طرف جہاں یہ نکاح ایک عارضی حل کے طور پر نظر آتا ہے، وہیں دوسری طرف یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس کے ذریعے پیدا ہونے والی اخلاقی اور معاشرتی پیچیدگیاں کیا ہیں۔

  • جنسی اخلاقیات اور فواحش سے بچاؤ: نکاحِ متعہ کو ایک طریقہ سمجھا جاتا ہے جس کے ذریعے لوگوں کی جنسی ضروریات جائز طریقے سے پوری کی جا سکتی ہیں، تاہم اس کا فائدہ تبھی ہوتا ہے جب اس کے استعمال کے اخلاقی اصولوں کا خیال رکھا جائے۔

  • معاشرتی استحکام: مستقل نکاح کے مقابلے میں نکاحِ متعہ عارضی نوعیت کا ہوتا ہے، جو معاشرتی استحکام کے لیے کم فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ مستقل نکاح کے ذریعے دونوں فریقین ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں، جو کہ بہتر معاشرتی روابط اور بچوں کی بہتر پرورش کے لیے اہم ہے۔

4. عصرِ حاضر میں نکاحِ متعہ کی اجازت پر بحث

آج کے دور میں جب کہ دنیا بھر میں معاشرتی اور اخلاقی اقدار تبدیل ہو رہی ہیں، نکاحِ متعہ کے جواز پر ایک بار پھر بحث شروع ہوئی ہے۔ کچھ مسلمان علما یہ سمجھتے ہیں کہ اس نکاح کو مخصوص حالات میں جائز قرار دیا جا سکتا ہے، جیسے کہ وہ افراد جو مستقل نکاح کرنے کے قابل نہیں ہیں یا وہ جنہیں جنسی تعلقات کی ضرورت ہے۔

تاہم، بیشتر مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ اس طرح کے عارضی نکاح کے بجائے ایک مستقل رشتہ قائم کرنا بہتر ہے، کیونکہ اس سے خاندان کی مضبوطی اور معاشرتی استحکام کو فروغ ملتا ہے۔

نتیجہ

نکاحِ متعہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر آج بھی مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ اگرچہ بعض مسلم مکاتب فکر اسے مخصوص حالات میں جائز سمجھتے ہیں، تاہم زیادہ تر علما اس کو آج کے دور میں غیر مناسب سمجھتے ہیں کیونکہ اس کے ذریعے معاشرتی استحکام اور اخلاقی اصولوں کو خطرہ پہنچ سکتا ہے۔

آج کے دور میں یہ ضروری ہے کہ ہم اس موضوع پر کھلی سوچ رکھیں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے فیصلے کریں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس کو بالکل رد کر دیں، بلکہ ہمیں اس کے اثرات اور اس کے ممکنہ نتائج پر غور کرنا چاہیے۔ اسلام کی اصل تعلیمات میں معاشرتی استحکام، خاندان کا تحفظ اور اخلاقی اصولوں کی اہمیت دی گئی ہے، اور ہمیں اپنے فیصلوں میں ان اصولوں کو مد نظر رکھنا چاہیے۔

قرآن مجید میں نکاحِ متعہ کے بارے میں کیا کہا گیا ہے؟

نکاحِ متعہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر اسلامی تاریخ اور فقہ میں وسیع بحث کی گئی ہے۔ مختلف مکاتب فکر میں اس کی جوازیت یا حرمت پر اختلافات ہیں، اور قرآن مجید میں اس کے بارے میں کچھ اشارات بھی ملتی ہیں۔ اس مضمون میں ہم قرآن مجید کی روشنی میں نکاحِ متعہ کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تاکہ اس بارے میں درست اور جامع معلومات حاصل کی جا سکیں۔

نکاحِ متعہ کیا ہے؟

نکاحِ متعہ ایک عارضی نوعیت کا نکاح ہے، جس میں مرد اور عورت ایک مخصوص مدت کے لیے عقد ازدواج میں بندھتے ہیں۔ اس نکاح میں طلاق کی ضرورت نہیں ہوتی، کیونکہ اس کا اختتام خود بخود اس مدت کے ختم ہونے پر ہو جاتا ہے۔ یہ نکاح مخصوص حالات میں جائز سمجھا جاتا ہے، جیسے کہ سفر یا جنگ کے دوران جنسی ضروریات کو پورا کرنا۔

قرآن مجید میں نکاحِ متعہ کا ذکر

قرآن مجید میں نکاحِ متعہ کی اجازت سے متعلق ایک آیت ہے جسے مختلف مکاتب فکر اپنے اپنے موقف کے مطابق تفسیر کرتے ہیں۔ اس آیت کا ذکر سورہ نساء کی آیت 24 میں آیا ہے:

“فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتوہُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِیضَةً وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِی مَا تَرَاضَیْتُمْ بِهِ مِنْ بَعْدِ فَرِیضَةٍ إِنَّ اللَّہَ کَانَ عَلِیماً حَکِیماً” (سورہ نساء: 24)

ترجمہ:
“اور تم جن عورتوں سے عارضی نکاح (متعہ) کرو، ان کو ان کی مقررہ اجرت دے دو اور تم میں جو باہمی رضا مندی ہو اس کے بعد اس میں کوئی گناہ نہیں۔ بے شک اللہ بڑی حکمت والا جاننے والا ہے۔”

نکاحِ متعہ کی جوازیت

یہ آیت قرآن مجید میں نکاحِ متعہ کی اجازت دیتی ہے، اور اس سے واضح طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام میں ایک وقت کی مدت کے لیے نکاح کو جائز قرار دیا گیا تھا۔ یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان رضامندی سے اس نوعیت کا نکاح قائم کیا جا سکتا ہے، جس میں عورت کو اس کی اجرت (مہر) ادا کرنا ضروری ہے، اور دونوں طرف سے باہمی رضامندی ضروری ہے۔

شیعہ مسلمان اس آیت کو اس بات کے جواز کے طور پر دیکھتے ہیں کہ نکاحِ متعہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں جائز تھا اور اس پر بعد میں پابندی عائد کی گئی۔ ان کے مطابق، یہ آیت واضح طور پر متعہ نکاح کی اجازت دیتی ہے۔

سنی مسلمان اور نکاحِ متعہ

سنی مسلمانوں کا موقف اس آیت کے بارے میں مختلف ہے۔ ان کے مطابق، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں نکاحِ متعہ پر پابندی لگا دی گئی تھی، اور اس کے بعد سے یہ عمل ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ سنی علما کا ماننا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں نکاحِ متعہ کی اجازت تھی، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر پابندی لگا کر اس کو حرام قرار دے دیا تھا۔

سنی مسلمان اس آیت کو اس وقت کی ایک مخصوص اجازت کے طور پر دیکھتے ہیں، جو بعد میں منسوخ ہو گئی۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ آج کے دور میں نکاحِ متعہ کو جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس سے معاشرتی اور اخلاقی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔

نکاحِ متعہ کی منسوخی اور بعد کی تعلیمات

اگرچہ قرآن مجید میں نکاحِ متعہ کی اجازت دی گئی تھی، مگر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس پر مختلف فقہی آراء سامنے آئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے دوران اس پر پابندی لگا دی اور اسے حرام قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے معاشرتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور اس کے ذریعے لوگوں کی اخلاقیات متاثر ہو رہی تھیں۔

اس کے بعد سے، نکاحِ متعہ کو اسلامی معاشرتی نظام میں غیر ضروری اور غیر اخلاقی سمجھا جانے لگا، اور اسے شادی کے ایک مستقل رشتہ کے طور پر دیکھنا زیادہ مناسب سمجھا گیا۔

قرآن کی تعلیمات کے مطابق نکاح کی اصل حقیقت

قرآن مجید میں نکاح کے حوالے سے جو بنیادی تعلیمات ہیں، وہ یہ ہیں کہ نکاح ایک مضبوط، مستقل، اور عہد و پیمان کا رشتہ ہے، جو نہ صرف مرد اور عورت کے لیے بلکہ پورے معاشرے کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں نکاح کو ایک مبارک رشتہ اور عبادت کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جس میں دونوں فریقین کے حقوق اور ذمہ داریوں کا مکمل خیال رکھا گیا ہے۔

“وَأَخَذْنَ مِنْهُ مِيثَاقًا غَلِظًا” (سورہ النساء: 21)
ترجمہ:
“اور تم نے ان سے ایک مضبوط عہد لیا تھا۔”

اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نکاح ایک مضبوط عہد اور ذمہ داری ہے، اور یہ معاشرتی استحکام کے لیے ضروری ہے۔ مستقل نکاح کے ذریعے خاندان کی بنیاد رکھی جاتی ہے، اور بچوں کی پرورش کے لیے ایک محفوظ ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔

نتیجہ

قرآن مجید میں نکاحِ متعہ کی اجازت ایک مخصوص دور کے حالات میں دی گئی تھی، لیکن اس کے بعد اس پر پابندی عائد کی گئی۔ سنی مسلمان اس کو منسوخ سمجھتے ہیں اور اس کی اجازت کو خاص حالات میں محدود کرتے ہیں، جبکہ شیعہ مسلمان اسے جائز سمجھتے ہیں اور اس پر عمل کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔

آج کے دور میں ہمیں اس موضوع پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ نکاحِ متعہ کے اثرات کیا ہیں اور اسے اسلامی معاشرتی اصولوں کے مطابق کیسے نافذ کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں ہمیشہ خاندان کی مضبوطی، استحکام، اور اخلاقی اقدار کو ترجیح دی گئی ہے، اور ہمیں اپنے فیصلے کرتے وقت ان اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

#NikahMutah #IslamicFiqh #MutahKiHaqiqat #ShiaAurSunni #IslamicMarriage #TemporaryMarriage #NikahMutahKeFawaid #IslamicDifferences #MutahKiIjazat #FiqhDifferences

Leave a Comment