Skip to content
سلطان صلاح الدین ایوبی

دوستوں جب سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ مصر کی سلطنت پر تخت نشین ہوئے تو چونکہ اس وقت سلطان کی تخت کو ہر طرف دشمنوں کا خطرہ لاحق تھا اور سلطان صلاح الدین کو چاروں طرف سے صلیبیوں نے گھیر اہوا تھا لیکن اس دوران سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی رعایا کو اکیلا نہ چھوڑا سلطان صلاح الدین ایوبی اکثر اوقات جنگی محاذ پر رہتے تھے اور آپ کا وقت اکثر دشمنوں کی گردنوں کو کاٹنے میں گزرتا لیکن اسی دوران سلطان صلاح الدین الولی نے اپنی رعایا کے اندر اعلان کر رکھا تھا کہ میری رعایا کے اندر اگر کسی کو انصاف کی ضرورت ہو کسی کے ساتھ نا انصافی ہو کسی کو کوئی بھی مسئلہ در پیش ہو اور اگر وہ مسئلہ میرے علاوہ کوئی حل نہ کر سکتا ہو تو بے شک وہ مسئلہ تم میرے پاس لے کر آ سکتے ہو اور اس وجہ سے سلطان صلاح الدین ایوبی نے اعلان کر رکھا تھا کہ محل کے اندر ہفتے کے دو دن کھلی کچہری لگے گی اور اس کھلی کچہری کے اندر ہر قسم کے فریادی آسکیں گے کھلی کچہری کے دروازے پر کوئی سپاہی موجود نہیں ہو گا تا کہ کسی کو بھی آنے میں کوئی بھی جھجک پیش نہ ہو اس کچہری کے اندر ہر امیر غریب فقیر آسکتا تھا اور اسی وجہ سے سلطان صلاح الدین ایولی رحمتہ اللہ علیہ معمول کی طرح اس دن بھی لوگوں کے مسائل سن رہے تھے
سلطان کی زندگی میں بہت کم ایسا ہوا تھا کہ سلطان کھلی کچہری کے اندر موجود ہوں اور سلطان صلاح الدین ایوبی کو کوئی اچانک کام پڑ جائے کیونکہ سلطان صلاح الدین ایوبی ہر کام کو اپنے وقت پر کرتے تھے لہذا کھلی کچہری والے دن سلطان صلاح الدین ایوبی اپنی رعایا کو وقت دیتے لیکن اس دن سلطان صلاح الدین ایوبی لوگوں کے مسائل سن رہے تھے اتنے میں ایک سپاہی نے سلطان کے کان میں آکر کچھ کہا تو سلطان صلاح الدین ایوبی کی لفظوں میں تیزی آگئی ایسا لگ رہا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کچہری کو آدھے راستے میں ہی چھوڑ کر کسی اہم کام کی طرف چلے جائیں گے لیکن تھوڑی دیر گزری تو پھر سیاہی سلطان صلاح الدین ایوبی کے قریب آیا اور سلطان کے کان میں کچھ کہا تو اس کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی دوبارہ آہستہ آہستہ لوگوں کے مسائل سننے لگے اور ان کو حل کرنے کا حکم دینے لگے سارے درباری حیران تھے کہ آخر سپاہی نے پہلے آکر سلطان کو کیا بتایا جس نے سلطان کو اتنا جلدی میں ڈال دیا اور پھر ایسا کیا ہوا کہ اس سپاہی نے ایسا کیا بتایا کہ پھر سلطان صلاح الدین ایوبی آرام سے لوگوں کے مسائل سننے لگے لیکن کسی کے اندر اتنی جرات نہیں تھی حتی کہ سلطان معظم کے قریبی ساتھیوں مشیروں اور وزیروں میں بھی اتنی جرات نہیں تھی کہ کوئی
سلطان صلاح الدین ایوبی سے سوال پوچھ سکے جب تک سلطان صلاح الدین ایوبی خود نہ بتانا چاہیں اسی دوران سلطان صلاح الدین ایوبی لوگوں کے مسائل سن رہے تھے اتنے میں ایک بوڑھا بزرگ جو کہ تقریبا 10 سال کی عمر کا تھا اس کے سر پر خاکی رنگ کے کپڑے کی پگڑی تھی اور ہاتھ میں ایک چھوٹا سا ڈنڈا تھا شاید اس نے وہ ڈنڈا اپنی حفاظت کے لیے رکھا تھا کیونکہ اس کی صحت کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ اس کو چلنے کے لیے ڈنڈے کی بالکل ضرورت نہیں تھی
باری باری سلطان صلاح الدین ایوبی لوگوں کے مسائل سن رہے تھے لیکن جب اس بوڑھے بزرگ کی باری آئی تو اس کو سلطان کے سامنے لایا گیا لیکن حیرانی کی بات یہ تھی کہ سلطان صلاح الدین الولی اس بوڑھے بزرگ سے متوجہ تھے لیکن اس کی زبان سے ایک لفظ بھی نہیں نکل رہا تھا سب لوگ حیران تھے کہ آخر بوڑھے بزرگ کو کیا ہوا آخر جو بوڑھا صبح سے سلطان کو اپنا مسئلہ بتانے کے لیے انتظار کرتا رہا آخر اس کو ایسا کیا ہو گیا کہ اب اس کی زبان کو تالا لگ گیا سب لوگ حیرانی سے اس کو دیکھ رہے تھے تو کوئی دل میں سوچنے لگا شاید یہ سلطان سے کچھ مال دولت کی طلب کرنے کے لیے آیا ہے اس لیے یہ شرم کی وجہ سے نہیں بتا رہا تو کوئی سمجھ رہا تھا کہ شاید کوئی عزت کا مسئلہ ہے لہذا سب درباریوں کے سامنے بتانے سے ڈر رہا ہے لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی سمجھ چکے تھے کہ ان دونوں مسئلوں میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ اس بوڑھے بزرگ کے چہرے کو دیکھ کر سلطان صلاح الدین ایوبی سمجھ چکے تھے کہ اس بوڑھے بزرگ کو اس عمر میں اس حلیے میں کوئی ذاتی مفاد میرے دربار کے اندر نہیں لے کر آیا اس بوڑھے بزرگ کے بولنے سے پہلے ہی سلطان صلاح الدین ایوبی کی زباں بول پڑی سلطان معظم نے کہا بابا جی میں یہ جانتا ہوں کہ آپ کو کوئی بھی ذاتی مفاد میرے محل کے اندر نہیں لے آیا ضرور کوئی ایسا مسئلہ ہے جس کو آپ بتانے سے گریز کر رہے ہیں یہ سن کر بوڑھا حیران ہو گیا اور کہا حضور آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں جو مسئلہ لے کر آیا ہوں وہ میرا اذاتی مسئلہ نہیں ہے تو سلطان نے کہا کہ ایک سلطان کی صرف دو آنکھیں نہیں ہوتی بلکہ سلطان ہر طرف سے دیکھتا ہے اس لیے تو اپنی سلطنت کے اندر اپنے لوگوں کے درمیان انصاف قائم کر سکتا ہے جو سلطان انصاف کا نظام قائم نہیں کر سکتا اس سلطان کی آنکھیں ہونے کے باوجود اس کو اندھا سمجھنا چاہیے کیونکہ وہ حقیقت میں سب کو جاننے کے باوجود اندھا ہوتا ہے سلطان کے اتنے بھاری الفاظ سن کر بوڑھا بزرگ حیران ہوا اور پھر بولنے لگا اس نے کہا سلطان معظم میری خاموشی کی بس ایک ہی وجہ ہے کیونکہ حضور یہ محل کسی عام سلطان کا نہیں یہاں لوگوں کو بڑے بڑے مسائل لے کر آنا چاہیے لیکن حضور میرا مسئلہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ شاید بہت چھوٹا ہے یا پھر یہ مسئلہ شاید بہت بڑا سے یہ سن کر سب درباری حیران ہو گئے کیونکہ اس بوڑھے کی باتیں شاید سلطان کے علاوہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا بابا جی آپ کو جو بھی مسئلہ در پیش ہے آپ کو جو بھی پریشانی ہے آپ بتائیں چاہے آپ کی پریشانی بڑی ہوئی یا چھوٹی ہوئی میں اس کو ختم کرنے میں آپ کی مدد ضرور کروں گا تو یہ سن کر بوڑھے بزرگ نے کہا حضور میرا نام نغم الدین ہے حضور میں مصر کی پہاڑیوں کے ساتھ ایک چھوٹا سا قبیلہ آباد ہے اس قبیلے کے اندر رہتا ہوں حضور ہمارا قبیلہ ایک چھوٹی سی پہاڑی کے ساتھ میں آباد ہے اور وہاں پانی کے خوبصورت چشمے ہیں اللہ کا شکر ہے کہ ہمیں اللہ تعالی نے اتنی خوبصورت سرزمین دی لیکن حضور پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ میں اس قبیلے کے سردار کے نیچے کام کرتا ہوں ہمارا سردار بڑا ہی رحم دل انسان ہے میرے پاس کوئی بھی کام کرنے کے لیے ہنر نہیں تھا نہ ہی کاروبار کرنے کے لیے رقم موجود تھی تو میں سردار کے پاس مدد کے لیے گیا تو اس نے مجھے کہا کہ تم قبیلے کی حفاظت کے لیے قبیلے کے ارد گرد چکر لگایا کرو اگر کوئی بھی تمہیں غلط چیز نظر آئے تو آکر مجھے ضرور بتانا کیونکہ ہمارا سردار قبیلے کی حفاظت کے لیے ہر وقت پریشان رہتا ہے تو حضور مجھے میرا سردار 200 سونے کے سکے ماہانہ تنخواہ دیتا ہے اور اس کے بدلے میں میں قبیلے کے چاروں طرف حفاظت کرنے کی وجہ سے چکر لگاتا رہتا ہوں
حضور پچھلے تقریبا ٹھیک 10 دنوں سے میں جب اس قبیلے کا چکر لگا رہا ہوتا ہوں تو اس قبیلے کے ساتھ میں جو موجود پہاڑی ہے اس پہاڑی کی چوٹی پر ہر روز حضور ایک سرخ رنگ کی گھوڑی آتی ہے وہ بہت زیادہ چیختی ہے چلاتی ہے بہت زیادہ شور کرتی ہے حتی کہ اپنے پاؤں بھی نیچے مارتی ہے اور تھوڑا دیر چیخنے چلانے کے بعد جب وہ تھک جاتی ہے تو پھر حضور وہ گھوڑی اتنا تیز رفتاری کے ساتھ دوڑتی ہے کہ چند ہی لمحوں کے اندر آنکھوں سے او مجھل ہو جاتی ہے حضور ایک دفعہ میں نے اس گھوڑی کو تکلیف میں دیکھا تو میں نے سمجھا کہ شاید اس کو کوئی جسمانی تکلیف ہو گئی یا پھر بھوک کی وجہ سے لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہمارا علاقہ سر سبز شاداب ہے وہاں چارے کی کوئی کمی نہیں لیکن حضور دوسرے دن میں جب قبیلے کا چکر لگا رہا تھا تو پھر میں نے وہی منظر دیکھا جب میں اس پہاڑی کی چوٹی کے پاس سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ اسی جگہ پر وہی سرخ رنگ کی گھوڑی جس کے گلے میں نہ کوئی رسی نہ کوئی لگام اکیلی گھوڑی وہ آتی ہے اور زمین پر پاؤں مارتی ہے بہت زیادہ روتی ہے اور جب وہ تھک جاتی ہے تو پھر واپس چلی جاتی ہے حضور ایسا جب پانچ سات دن تک مسلسل ہوتا رہا تو آٹھویں دن میں نے اس گھوڑی کا پیچھا کرنا چاہا لیکن میں اس گھوڑی کا پیچھا نہیں کر سکا میں بڑا حیران تھا کہ آخر اس گھوڑی کے اندر مسئلہ کیا ہے یہ تھوڑی ہر روز یہاں کیا کرنے آئی ہے آخر اسے کس کا انتظار ہے یہ کس کی گھوڑی ہے میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا پھر میں نے سوچا کیوں نہ یہ مسئلہ لے کر اپنے سردار کے پاس جاؤں اگر سردار اس معاملے کی جانچ پڑتال کروالیں تو ہو سکتا ہے کہ کوئی واضح بات نظر آجائے لیکن جب میں سردار کے پاس گیا تو مجھے اس وقت خبر ملی کہ ہمارا سردار تو تجارتی قافلے کے ساتھ اسکندریہ کے اندر چلا گیا ہے اور تقریبا اس کو واپس آتے ہوئے ایک ماہ لگ جائے گا چونکہ اس وقت سردار کا اکلوتا بیٹا قبیلے میں موجود ہے لیکن حضور وہ اتنا سخت ہے کہ وہ ہم جیسے آدمیوں کے ساتھ بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتا میں نے سوچا کہ اگر سردار یہاں نہیں سے تو پھر میں آخر اس مسئلے کا ذکر کس کے سامنے کروں کیونکہ لوگوں کی نظر میں شاید یہ مسئلہ بہت چھوٹا ہے لیکن حضور مجھے لگتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی بڑی وجہ ہے ہمیں معلوم کرنی چاہیے کہ آخر وہ تھوڑی ہر روز اسی جا جگہ کیوں آتی ہے اور اتنا زیادہ دیر چلانے کے بعد وہاں سے چلی جاتی ہے حضور میں نے پہاڑی کے اوپر پورا چکر لگا یا لیکن مجھے کوئی بھی سراغ نہ ملا حضور حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ مسلسل 10 دنوں سے وہ گھوڑی ایسا کر رہی ہے میں بڑا حیران و پریشان ہوں اور مجھ سے اب اس گھوڑی کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی کیونکہ میں دل کا کمزور ہوں اور مسلسل 10 دنوں سے اس گھوڑی کو تکلیف میں دیکھ رہا ہوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ کوئی ایسی بات ہے جو اس گھوڑی کو اندر سے کھائے جارہی ہے پہلے تو مجھے شک ہوا کہ شاید اس گھوڑی کا یہاں کوئی بچہ کھو گیا ہو گا جس کی وجہ سے شاید یہ اپنے بچے کو تلاش کرنے کے لیے آتی ہو گی لیکن پھر میں نے سوچا کیونکہ اس کے پیٹ پر زین بندھی ہوئی ہے اور وہ گھوڑی ابھی حاملہ نہیں ہوئی تو پھر اس کا بچہ کہاں سے ہو گا اور اگر اس کا بچہ کھو جاتا تو اس کا مالک گھوڑے کے بچے کو تلاش کرنے کے لیے ضرور آتا یہ گھوڑی یہاں اکیلی ہر روز کیوں آتی ہے حضور میں بڑا پریشان ہوا کیونکہ اب میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔۔۔ بس اب میں ہر روز اس گھوڑی کو دیکھتا اور وہ گھوڑی آتی چیختی چلاتی اپنے پاؤں زمین پر مارتی اور وہاں سے چلی جاتی ایک دن میں اپنے قبیلے کے ارد گرد چکر لگا رہا تھا تو ہمارے قبیلے کے پاس میں ایک راستہ گزرتا ہے جو ہمارے پڑوسی قبیلے کی طرف جاتا ہے ہمارے پڑوسی قبیلے کا ایک آدمی اسی راستے سے گزر کر جا رہا تھا حضور وہ بہت خوش لگ رہا تھا میں نے اس سے پوچھا میاں آپ کی خوشی کی وجہ کیا ہے اس نے کہا جو انصاف مجھے پچھلے دو سالوں سے نہیں مل سکا وہ انصاف مجھے ایک دن کے اندر مل گیا میں نے کہا ارے میاں تم کس قاضی کے پاس گئے تھے کہ جو تمہیں انصاف دو سال کے اندر نہیں ملا وہ تمہیں ایک دن کے اندر مل گیا تو اس نے کہا میں کسی قاضی کے پاس نہیں گیا میں بڑا حیران ہو گیا کہ اگر تم قاضی کے پاس نہیں گئے تو تمہیں انصاف کیسے ملا تو اس نے کہا کہ میں مصر کی بہت بڑی عدالت کے اندر گیا تھا اور وہاں کے قاضی نے مجھے انصاف دلایا میں نے پوچھا میاں سیدھے سیدھے الفاظ میں بتاؤ تم کس جگہ کی بات کر رہے ہو اس نے کہا کہ میں سلطان کے دربار میں گیا تھا اور میں نے سلطان کو اپنا مسئلہ بتایا اور جس مسئلے کے پیچھے میں دو سال سے خوار ہو رہا تھا سلطان معظم نے چند ہی لمحوں کے اندر اس مسئلے کو حل کر کے مجھے انصاف دلایا میں نے پوچھا تمہارا مسئلہ کیا تھا اس نے کہا کہ میں نے قاہرا کے اندر ایک تاجر کو تین تانگے سامان کہہ دیے تھے اور اس کے بدلے میں اس نے مجھے تین ہزار سکوں کا وعدہ کیا تھا لیکن جب سامان اس کے پاس پہنچا تو بارش کی وجہ سے سامان خراب ہو چکا تھا جب تاجر نے سامان خراب ہوا دیکھا تو اس نے کہا میں اس سامان کی رقم ادا نہیں کروں گا کیونکہ یہ سامان خراب ہو چکا ہے لیکن میرے پاس ثبوت تھا کہ اس تاجر کا اور میرا سودا قبیلے کے اندر ہوا تھا جب قبیلے کے اندر سودا ہو گیا تو اب وہ مالک اس سامان کا تاجر بن گیا لیکن جب رقم دینے کا وقت آیا تو وہ تاجر بھاگ گیا میں کئی قاضیوں کے پاس گیا تو مجھے قاضیوں نے کہا کہ جب اس کے پاس سامان صحیح نہیں پہنچا تو پھر وہ تمہیں رقم کیسے دے اور اسی وجہ سے میں دو سالوں سے چکر لگا رہا تھا لیکن جب میں سلطان کے پاس گیا اور میں نے سلطان کو بتایا کہ سلطان معظم اس تاجر کا اور میرا سودا قبیلے کے اندر طے ہو گیا اور اس مال کی قیمت بھی میں نے اس کو بتادی اور اس کے درمیان اور میرے درمیان معاہدہ بھی طے پا گیا اور اس نے کہا کہ اب یہ مال میرا ہے لیکن حضور جب مال راستے میں پہنچا تو بارش کی وجہ سے سارا مال خراب ہو گیا لیکن حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ وہ مال اس تاجر کے اپنے ہی آدمی لے کر جا رہے تھے ان کے پاس کوئی حفاظتی تدابیر نہیں تھی جس کی وجہ سے سارا مال خراب ہو گیا لیکن میں کمزور تھا اور وہ تاجر دولت مند آدمی تھا لہذا مجھے انصاف نہ ملا لیکن جب میں سلطان کے پاس گیا تو سلطان نے ایک ہی دن کے اندر اس تاجر کو بلایا اور اس سے رقم وصول کر کے دی اس لیے میں خوش ہو کر جا رہا ہوں میں نے جب سلطان معظم اس تاجر آدمی کے منہ سے یہ الفاظ سنے تو میں نے سوچا کہ پھر آپ سے بڑا منصف اس سر زمین کے اندر کون ہو گا اگر مجھے مسئلہ لے کر جانا ہے تو آپ کے پاس آؤں گا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اگر میں مسئلہ لے کر کسی قاضی کسی سردار کے پاس گیا وہ الٹا میر انذاق اڑائیں گے کہ ایک گھوڑی کی وجہ سے تم شہر میں ڈھنڈورا پیٹتے پھر رہے ہو۔۔ اس لیے سلطان معظم میں نے بڑی منت سماجت کر کے کسی اور بہانے سے سردار کے بیٹے سے چند دنوں کے لیے اجازت لی اور اپنے گدھے پر سوار ہو کر پہنچ گیا اور حضور اسی وجہ سے میں نے اپنے گدھے کو تھوڑا دور باندھ دیا تا کہ آپ کے سپاہی مجھے گدھے پر دیکھ کر روک نہ سکیں لیکن جب میں محل کے اندر پہنچا تو حضور یہاں کا انصاف دیکھ کر میرا تو دل خوش ہو گیا میں نے دیکھا کہ یہاں امیر غریب سب ایک جیسے ہیں اور ہر آدمی کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جا رہا ہے یہ سن کر سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا جب تک میرے جسم کے اندر جان ہے جب تک میری سانسیں چل رہی ہیں اس سر زمین پر میرے انصاف کی تلوار چلتی رہے گی اب سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا بابا جی اگر اس گھوڑی کے بارے میں معلوم کرنا ہے تو ہمیں اس گھوڑی کا پیچھا کرنا ہو گا اور پھر ہی ہمیں پتہ چلے گا کہ وہ گھوڑی کہاں سے آتی ہے اور آخر اس کی تکلیف کی وجہ کیا ہے تو بوڑھے بزرگ نے کہا حضور آپ کچھ بھی کر کے یہ راز معلوم کریں کیونکہ مجھ سے اب اس گھوڑی کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی بوڑھے بزرگ نے سوچا کہ شاید سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے کسی سپاہی کو میرے ساتھ بھیجے گا جو جا کر اس گھوڑی کے مسئلے کو حل کرے گا لیکن جب بوڑھے کو پتہ چلا کہ وقت کا سلطان میرے ساتھ خود اس گھوڑی کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے چل رہا ہے تو وہ سکتے میں آگیا وہ سارے راستے سوچتا رہا کہ اگر اس سرزمین پر سلطان جیسے حکمران موجود رہے تو کبھی بھی دشمن ہمارے زمین کا ایک ٹکڑا بھی ہم سے نہیں چھین سکتا جب سلطان صلاح الدین ایوبی قبیلے کے اندر پہنچے تو چونکہ قبیلے کا سردار وہاں موجود نہیں تھا لیکن جب سردار کو پتہ چلا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی اس قافلے کے ساتھ قبیلے کے اندر آ رہا ہے تو پورے قبیلے کے لوگ سلطان کا استقبال کرنے کے لیے پہنچ گئے سلطان صلاح الدین ایولی سیدھا سردار کے خیمے کے اندر گئے تو قبیلے کے سردار کے بیٹے نے سلطان کے لیے اعلی قسم کا کھانا لگوایا لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی نے ایک بھی لقمہ نہیں کھایا بلکہ ایک گھونٹ پانی کا بھی نہ پیا اور قبیلے کے سردار کو کہا کہ تم ایک سردار کے بیٹے ہو لہذا تمہیں انصاف کے ساتھ قبیلے کا سردار بننا چاہیے کہیں اپنے ارد گرد نظر رکھنی چاہیے تھی ایک بوڑھے بزرگ کو ایک گھوڑی کی تکلیف نظر آگئی لیکن ایک سردار کے بیٹے کو گھوڑی کی تکلیف نظر نہ آئی یہ سن کر وہ سردار کا بیٹا بڑا شر مندہ ہوا اور اس کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی سردار کا بیٹا اور وہ بوڑھا بزرگ اس پہاڑ کی چوٹی کی طرف چل پڑے سلطان صلاح الدین ایوبی جب اس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تو اس بوڑھے بزرگ نے کہا حضور بس تھوڑی ہی دیر میں وہ گا وہ گھوڑی آنے والی ہے کیونکہ مسلسل آٹھ سے 10 دنوں سے وہ گھوڑی
اسی ہی وقت پر اسی چوٹی پر آتی ہے اور یہاں پاؤں ر گزر گڑ کر چیخ چلا کر واپس چلی جاتی ہے اب صلاح الدین ایوبی جھاڑیوں کے پیچھے چھپ کر دیکھنے لگے کہ آخر اس بوڑھے بزرگ کی بات میں کتنی حقیقت ہے سلطان صلاح الدین ایوبی بہت احتیاط برتا کرتے تھے کیونکہ سلطان صلاح الدین ایوبی چاروں طرف دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے سلطان صلاح الدین ایوبی جھاڑیوں میں چھپ گئے تھوڑی ہی دیر گزری کہ کسی گھوڑی کی دوڑنے کی آواز آنے لگی سلطان نے چھپ کر دیکھا تو بوڑھے بزرگ نے کہا حضور وہی گھوڑی آ رہی ہے سلطان نے دیکھا کہ اس گھوڑی کے منہ کے اندر کوئی لگام نہیں تھا بس اس کے پیٹھ پر ایک زین بندھی ہوئی تھی سلطان صلاح الدین ایوبی حیران ہو گئے لیکن جب وہ گھوڑی اسی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچی تو بوڑھے بزرگ کے بتانے کے مطابق اس گھوڑی نے وہاں زمین پر پاؤں مارنا شروع کر دیے اور پھر چیخنا شروع کر دیا بہت ساری دیر وہ پاؤں مارتی رہی چیختی رہی اس گھوڑی کو اتنا تکلیف میں دیکھ کر سلطان کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے کیونکہ اس گھوڑی نے پتھروں پر پیر رگڑ رگڑ کر اپنے آپ کو زخمی کر لیا تھا سلطان حیران ہو گئے کہ آخر گھوڑی کو کس چیز نے تکلیف میں ڈال رکھا ہے۔۔۔۔اتنے میں اس بوڑھے بزرگ نے کہا سلطان معظم کچھ کریں ورنہ ابھی یہ گھوڑی واپس چلی جائے گی اور پھر اس گھوڑی کا تعاقب کرنا مشکل ہو جائے گا تو اتنے میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے گھوڑے پر چھلانگ لگائی اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو گئے اب تھوڑی دیر گزری گھوڑی نے تھک کر واپسی کا سفر شروع کر دیا اور اتنی تیز رفتار کے ساتھ دوڑی کہ سلطان کی آنکھوں کے سامنے اوجھل ہو گئی لیکن سلطان کے پاس بھی کوئی عام گھوڑا نہیں تھا سلطان نے بھی اپنے گھوڑے کو اتنا تیز رفتاری کے ساتھ دوڑایا کہ چند ہی لمحوں کے اندر پھر سے وہ گھوڑی نظر آنے لگی سلطان نے دیکھا کہ وہ گھوڑی ایک جنگل والے راستے سے نکل کر کچی آبادیوں کی طرف جا رہی تھی اب سلطان صلاح الدین ایوبی پیچھے اور وہ گھوڑی آگے جارہی تھی تھوڑی دیر کے بعد گھوڑی ایک اصطبل کے اندر داخل ہوئی سلطان نے گھوڑے کو اصطبل کے سامنے روکا اور اس اصطبل کے اندر داخل ہو گئے اور اندر جاکر سلام کیا اصطبل میں موجود ملازموں نے پوچھا حضور آپ کون ہیں سلطان نے کہا میں ایک مسافر ہوں اور پوچھا یہ گھڑی کس کی ہے تو انہوں نے کہا حضور یہ گھوڑی ہمارے سردار کی ہے لیکن ہمارا سر دار تو پچھلے تقریبا1210 دنوں سے غائب ہو گیا ہے سلطان نے کہا یہ تم کیا کہہ رہے ہو وہ کہاں غائب ہو گیا انہوں نے کہا ہمارا سردار اپنی گھوڑی پر سوار ہو کر شکار کھیلنے کے لیے گیا تھا لیکن ہمارے سردار کی صرف اکیلی گھوڑی واپس آئی اور جس دن سے ہمار ا سردار غائب ہوا ہماری گھوڑی نے ایک لقمہ بھی نہ کھایا بس ہر روز اسی طرح بھاگ جاتی ہے اور پھر اپنے آپ ہی واپس جاتی ہے اور ہم اس گھوڑی کو باندھ بھی نہیں سکتے کیونکہ ہمارا مالک اکثر کہتا تھا کہ اگر مجھے کچھ ہو بھی جائے تو میری اس گھوڑی کو کبھی رسی سے باندھ کر نہیں رکھنا یہ آزادی کی زندگی گزارے گی اس کا جہاں بھی دل کرے گا یہ چلی جائے گی اسی وجہ سے یہ گھوڑی آزاد ہے حالانکہ باقی گھوڑے اصطبل کے اندر باندھے ہوئے ہیں تو سلطان نے کہا کیا تم نے اپنے سردار کو تلاش نہیں کیا انہوں نے کہا حضور ہمارے سردار کو ہمارے سارے سپاہیوں نے تلاش کیا ہم نے اس پہاڑ کی چوٹی کا چپا چپا چھان مارا جہاں ہمیں وہ گھوڑی لے گئی لیکن ہمار ا سردار ہمیں کہیں نہ ملا حضور اس پہاڑ کی چھوٹی پر ہمارے سردار کے جسم کا ایک ٹکڑا بھی نہ ملا ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے سردار کو کوئی شاید وحشی جانور کھا گیا یہ سن کر سلطان نے کہا اگر تمہارے سردار کی موت ہو چکی ہوتی تو اب یہ گھوڑی اس طرح بے چین نہ ہوتی ضرور تمہار ا سردار تکلیف میں ہے لہذا اس تلاش کرنا ہو گا یہ سن کر ان ملازموں میں سے ایک ملازم بولا حضور آپ کون ہیں اور آپ ہماری مدد کرنے کے لیے کیوں تیار ہو گئے تو جب سلطان نے بتایا کہ میں وقت کا سلطان ہوں تو سارے ملازموں کے سر جھک گئے اب سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے سپاہیوں کے ساتھ اس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے پہاڑ کی چوٹی پر جنگل کا ایک ایک چپہ چھان مارا لیکن کوئی بھی نشان نہ ملا تو اتنے میں ایک ملازم نے بتایا حضور اس پہاڑ کی چوٹی سے تھوڑا سا نیچے ایک غار ہے وہ غار گزرنے کے بعد ایک بڑا سا جنگل آتا ہے لیکن اس جنگل کے اندر آج تک کوئی بھی ڈر سے نہیں گیا کیونکہ جو بھی جنگل کے اندر گیا زندہ واپس نہیں آیا اس لیے ہم نے اس جنگل کے اندر اپنے مالک کو تلاش بھی نہیں کیا کیونکہ اگر وہ جنگل کے اندر چلے بھی گئے ہوں گے تو اب تک حیات نہیں ہوں گے یہ سن کر سلطان نے کہا میں اس جنگل کے اندر ضرور جاؤں گا اور اگر تمہار ا سر دار زندہ ہوا تو اسے ضرور واپس لاؤں گا سب لوگ حیران تھے لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی اپنی میان سے تلوار نکالے اس جنگل کی طرف چل پڑے سلطان صلاح الدین ایوبی اس غار سے گزرنے لگے تو اس غار کے اندر بہت اندھیر اتھا لیکن جب سلطان غار سے نکلے تو آگے بہت بڑا جنگل نظر آرہا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی اس جنگل کے اندر چلتے گئے چلتے گئے جب جنگل کے اندر پہنچے تو ایک آدمی کے کراہنے کی آواز میں ارہی تھیں سلطان صلاح الدین ایوبی نے کان لگا نا شروع کر دیے اور آہستہ آہستہ سلطان ایک ایسے غار کے اندر جا پہنچے جہاں ایک آدمی بری طرح زخمی پڑا ہوا تھا اس کو دیکھ کر سلطان کو سمجھ آگیا کہ اس کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ پہاڑ کی چھوٹی سے گرا ہے اب سلطان کھڑا بس یہی سوچنے لگا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ آدمی اسی گھوڑی کا مالک ہو تو اتنے میں ایک آدمی اپنے ہاتھ میں کچھ جڑی بوٹیاں لیے وہاں پہنچا اور پوچھا اے آدمی تم کون ہو اور اتنے بڑے گھنے جنگل کے اندر کیا کر رہے ہو تو اچانک اس آدمی کی نظر سلطان کی انگلی پر پڑی جس کے اندر شاہی انگوٹھی تھی تو اس آدمی کے ہاتھوں سے ساری جڑی بوٹیاں گر گئیں اور کہا سلطان معظم آپ یہاں کیسے تو سلطان نے کہا یہ آدمی کون ہے تو اس نے کہا حضور یہ ادمی پہاڑ کی چوٹی سے گرا اور نیچے آگیا میں جنگل کے اندر اپنی جڑی بوٹیاں تلاش کر رہا تھا تو میری اس پر نظر پڑی اور میں اسے یہاں اٹھا کر لایا لیکن اس کے زخم بہت گہرے ہیں یہ اندر سے ٹوٹ چکا ہے اور میرے پاس وہ ادویات نہیں جو اس کے زخموں کا علاج کر سکیں لیکن میں اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہا تھا سلطان معظم اگر وقت پر نہ پہنچتے تو شاید یہ درد کی شدت سے تڑپ تڑپ کر مر جاتا سلطان صلاح الدین ایوبی نے آواز لگائی تو سلطان کے سپاہی اس اصطبل کے موجود ملازموں کے ساتھ جب اس غار کے اندر پہنچے تو وہ اپنے مالک کو دیکھ کر جذباتی ہو گئے اور انہوں نے کہا حضور یہی ہمار ا سردار ہے۔۔۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ سردار کو اٹھا کر لے چلو سلطان صلاح الدین ایوبی کے حکم پر اسی قبیلے کے شفا خانے کے اندر سردار کو لے جایا گیا اس کے بعد حکیم کو بلایا گیا اور حکیم نے سردار کا علاج شروع کر دیا اور چند ہی گھنٹوں کے اندر سردار کی صحت بہتر ہونے لگی تو یہ دیکھ کر سلطان صلاح الدین ایوبی نے بوڑھے بزرگ کو انعام و کرام سے نوازا کیونکہ اگر وہ بوڑھا بزرگ سلطان کے پاس نہ جاتا اور سلطان کو نہ بتانا کہ حضور وہ گھوڑی ہر روز ایسے آتی ہے اور زمین پر ٹکٹر ٹکر مار مار کر چلی جاتی ہے کیونکہ گھوڑی جانتی تھی کہ اس کا مالک اسی پہاڑ کی چوٹی سے گرا ہے اور وہ ابھی تک زندہ ہے اور اسی وجہ سے وہ ہر روز گھوڑی آتی تھی اور زمین پر پاؤں مار مار کر چلی جاتی تھی اور اسی وجہ سے سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس بوڑھے بزرگ کو انعام و کرام سے نوازا اور اس حکیم کو بھی انعام سے نوازا جو جنگل کے اندر اس زخمی سردار کا علاج کر رہا تھا اور اسی طرح اس بوڑھے بزرگ کو پتہ چل گیا کہ آخر وہ گھوڑی ہر روز پہاڑ کی چوٹی پر رکھ کر اتنا شور کیوں کرتی تھی۔۔۔