ایک دن سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت الله علیہ اپنے چند سپاہیوں کے ساتھ کسی ضروری کام کے لیے محل سے روانہ ہوئے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ کے ساتھ آپ کا ایک ماہر کماندار اور باقی سپاہی موجود تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ کا سفر کافی طویل تھا چلتے چلتے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ علیہ کی نظر ایک کنویں پر پڑی تو سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے سپاہیوں کو کہا کہ اس کنویں کے قریب جا کر تھوڑی دیر آرام کرتے ہیں اور پانی پی کر پھر وہاں سے روانہ ہو جائیں گے۔ جب سلطان صلاح الدین ایوب رحمت اللہ علیہ اس کنویں کے قریب گئے تو سپاہی نے لوٹا نیچے لٹکایا اور اور پانی کا ایک لوٹا نکالا سپاہی نے سب سے پہلے سلطان معظم کو پانی پلایا اور پھر باقی سپاہیوں کو بھی پانی پلایا۔ اتنے میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ کی نظر اس کنویں کے مالک یعنی ایک بزرگ پر پڑی جو اس کنویں کے ساتھ بنے ہوئے ایک چھوٹے سے حوض میں پانی ڈال رہا تھا۔ اور اس میں بچے نہا رہے تھے سلطان بڑا خوش ہوا کہ یہ بزرگ نیکی کا کام کر رہا کہ اتنی گرمی کی شدت میں ان بچوں کو پانی میں نہلا رہا ہے۔ لیکن پھر سلطان کی خوشی حیرانی میں تبدیل ہو گئی کیونکہ سلطان کی نظر تھوڑی دیر بعد دوبارہ اس بزرگ پر پڑی تو وہ بزرگ ان بچوں سے اس حوض میں نہانے کے بدلے 10 سونے کے سکے ایک ایک بچے سے وصول کر رہا تھا۔ یہ دیکھ کر سلطان بڑا حیران ہوا کہ آخر وہ بزرگ ان بچوں سے نہانے کے بدلے اتنا زیادہ معاوضہ کیوں لے رہا ہے ؟
سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ اس بزرگ کی طرف بڑھنے لگا تو اتنے میں وہ بزرگ وہاں سے رقم لے کر اپنے گھوڑے سے روانہ ہو گیا… لیکن یہ سوال سلطان دل میں لیے جا رہا تھا کہ آخر وہ بزرگ اس عمر میں نیکی کمانے کی بجائے دولت کی ہوس لیے ہوئے ہے سلطان بڑا حیران ہوا کہ ابھی تک میری سلطنت میں میری رعایہ کے دل میں دولت کی ہوس ابھی تک موجود ہے اور اس بات نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو بڑا پریشان کر دیا۔ پھر سلطان صلاح الدین ایوبی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گیا سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ علیہ کا سفر تقریبا 15 دنوں پر مشتمل تھا اتفاق کی بات کے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کا گزر واپسی پر ایک بازار سے ہوا۔ سلطان نے سپاہیوں کو کہا کہ یہاں اس بازار میں ایک بزرگ رہتا ہے ہم اس کے پاس جا کر رکیں گے آج رات آرام کریں گے کھانا بھی اس کے پاس کھائیں گے اور صبح اپنی منزل کی طرف روان ہو جائیں گے۔ سلطان صلاح الدین ایوب رحمت الله علیہ نے اس بازار کے ایک کونے میں اپنے گھوڑے باندھ دیے اور اس بزرگ کے پاس چلا ہے گئے۔ وہ بزرگ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمة اللہ علیہ کو اپنی دکان کے پیچھے چھپے تہ خانے میں لے گیا جہاں آرام دہ بستر بچھے ہوئے تھے اور سلطان کے لیے لذیذ کھانوں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ نے کھانا کھانے کے بعد نماز عشاء ادا کی اور پھر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سفر کی وجہ سے تھک چکے تھے لہذا آپ ارام کرنے کے لیے بستر پر لیٹ گئے اور تین محافظ سلطان صلاح بستر پر لیٹ گئے اور تین محافظ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کی حفاظت کے لیے اپنی اپنی جگہ پر ڈیوٹی کرنے لگے۔ صبح ہوئی سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ نے نماز صبح ادا کی اور تھوڑی دیر سیر و تفریح کے لیے نکل گئے لیکن جاتے وقت اس بزرگ تاجر نے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کو کہا سلطان معظم اس بازار میں کوئی بھی نہیں جانتا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی آج رات اس بازار میں قیام کیے ہوئے ہیں لیکن جب صبح لوگ آپ کو دیکھیں گے تو بازار میں بھیڑ کی وجہ سے آپ کی جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے لہذا اپ ایک عام آدمی کے بھیس میں سیر کے لیے چلے جائیں سلطان کو اس بزرگ کی یہ ترکیب پسند آئی اور سلطان نے ایک عام آدمی کا بھیس بدلا اور سیر و تفریح کے لیے چلا گیا کیونکہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ صبح سویرے نماز کے بعد معمول کی طرح سیر و تفریح کرتے تھے تاکہ سلطان چاہتا تھا کہ اس کی صحت بالکل تندرست رہے کیونکہ سلطان کے کندھوں پر سلطنت کا بہت بھاری بوجھ تھا اس لیے سلطان چاہتا تھا کہ میں صحت یاب رہوں۔۔۔ سلطان صلاح الدین ایوب رحمت اللہ علیہ ایک عام آدمی کے بھیس میں جب سیر و تفریح کر کے واپس لوٹا تو اچانک سلطان صلاح الدین ایوبی کی نظر ایک آدمی پر پڑی جو چھوٹے چھوٹے بچوں کو قطار میں بٹھا کر کھانا کھلا رہا تھا اور جب سلطان اس کے قریب گیا م تو دیکھا کہ یہی وہ بزرگ تھا جو اس کنویں پر بچوں کو نہانے کے بھی پیسے لے رہا تھا یہ ماجرہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا تو بڑا حیران ہوا کہ آخر یہ بزرگ چاہتا کیا ہے۔ ادھر یہ بچوں سے صرف نہانے کے 10 سونے کے سکے لے رہا تھا اور ادھر یہ بچوں کو مفت میں کھانا کھلا رہا ہے آخر اس کے پیچھے کیا راز ہے ؟
سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ اس بزرگ کی طرف بڑھنے لگا کہ آخر اس سے اس سوال کا جواب پوچھا جائے اتنے میں سلطان اس کی طرف بڑھنے لگا تو پیچھے سے اس تاجر نے سلطان کو بلایا اور کہا حضور والا مجھے شک ہے کہ کہیں لوگ اپ کو پہچان نہ لیں کیونکہ اس بازار میں بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو آپ کو پہلے مل چکے ہیں اگر تو کسی کو پتہ چل گیا کہ آپ سلطان معظم آپ کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے کیونکہ دشمن ہر جگہ موجود ہیں تو سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ دوبارہ سے وہ سوال اپنے دل میں لیے واپس تہ خانے میں چلا گیا اب سلطان نے دل میں سوچا کہ جب واپسی پر روانہ ہوں گے تو اس وقت اس بزرگ سے سوال پوچھ لوں گا سلطان تہ خانے میں چلا گیا اور ناشتہ کرنے کے بعد اپنی منزل کی طرف روانہ ہونے کے لیے گھوڑوں پر سوار ہوئے جب سلطان صلاح الدین ایوبی بازار سے نکلا تو اپنے سپاہیوں کو کہا کہ تم بازار کے باہر میرا انتظار کرو میں چند لمحوں کے بعد ارہا ہوں ۔ اب سلطان صلاح الدین ایوبی دوبارہ بازار میں لوٹا اور ایک دکاندار کے پاس گیا اور پوچھا کہ اس جگہ پر ایک بزرگ بچوں کو کھانا کھلا رہا تھا کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ وہ بزرگ کہاں رہتا ہے اور آخر وہ ان بچوں کو مفت میں کھانا کیوں کھلا رہا تھا تو اس تاجر نے کہا اے بھائی مجھے نہیں پتہ یہ بھی بڑا ہی عجیب آدمی ہے اس کی ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتی کئی سالوں سے غریبوں اور یتیموں کے بچوں کو مفت میں کھانا کھلا رہا ہے۔۔ سلطان صلاح الدین ایوبی دوبارہ اپنے سوال کو دل میں لیے اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گیا وقت گزرتا رہا اور ایک دن پھر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ اتفاق سے سلطان کا گزر ایک گاؤں سے ہوا تو اچانک اس گاؤں میں شور آنے لگا سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے سپاہی کو بھیجا کہ جاکر معلوم کرو کہ آخر اس گاؤں میں ایسا کیا ہوا کہ لوگ اتنا شور کیوں کر رہے ہیں تو سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کو تھوڑی دیر کے بعد سپاہی نے اگر بتایا کہ حضور والا اس گاؤں کے ایک بڑے تاجر کے گھر سے بہت سارا سونا چوری ہو گیا اور چورا بھی بھاگ کر جا رہا ہے گاؤں والے اس کے پیچھے لگے ہیں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا گھوڑا دوڑا دیا تا کہ اس چور کو پکڑ سکے آپ کا کماندار آپ کو منع کرتا رہا کہ حضور آپ کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے آپ اس بھیٹر کے اندر نہ جائیں لیکن سلطان نے اپنا گھوڑا دوڑا دیا اب چلتے چلتے سلطان نے اس بزرگ کو ایک جنگل کے بیچ میں جاکر پکڑا اس بزرگ کے پاس گھوڑا کافی طاقتور تھا لہذا سلطان کو اس کو پکڑنے میں بہت وقت لگ گیا سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بزرگ کے جب منہ سے بھیس ہٹایا تو دیکھا کہ یہ تو وہی بزرگ تھا جو کنویں پر بچوں سے سکے لے رہا تھا اور وہی بزرگ بازار میں بچوں کو مفت میں کھانا کھلا رہا تھا اور وہ وہی بزرگ اب اس تاجر کے گھر کے سے سونا چوری کر کے لے جا رہا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی یہ دیکھ کر بڑا حیران و پریشان ہو گیا کہ آخر یہ بزرگ کے پیچھے کیا راز ہے جہاں بھی جاتا ہوں ہر برائی کے پیچھے بھی یہی نظر آتا ہے اور اچھائی کے پیچھے بھی یہی نظر آتا ہے آخر یہ بزرگ ہے کون تو سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ علیہ نے اس کی گردن پر تلوار رکھتے ہوئے کہا کہ تم مجھے اب سچ سچ بچادو کہ یہ سب تم کیا کر رہے ہو اور کیوں کر رہے ہو تو اس آدمی نے کہا یہ میرا اور میرے اللہ کے درمیان ایک راز ہے۔ یہ تمہیں کبھی بھی نہیں بتا سکتا سلطان نے کہا کہ ایک طرف تم معصوم بچوں سے بھاری معاث لے کر ان کو نہانے دیتے ہو دوسری طرف تم لوگوں کے گھروں سے چوریاں کرتے ہو اور اب کہتے ہوئی اے اللہ اور میرے درمیان پردہ ہے مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آرہی۔ سلطان ابھی یہی بات کہہ رہا تھا کہ اچانک سے ایک تیر نکلا اور اس بزرگ اور سلطان کے درمیان میں سے گزر کر ایک درخت پر جالگا سلطان صلاح الدین ایوبی کا دھیان جب اس تیر کی طرف بٹا تو وہ بزرگ پھر سے بھاگا اور گھوڑے پر دوڑ کر وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہو گیا سلطان صلاح الدین ایوبی بڑا حیران تھا کہ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے بلکہ اسے کے پیچھے کوئی راز ہے میں تیسری مرتبہ اس کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہوں اور یہ مجھ سے بھاگ نکلتا ہے ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی محل واپس آگیا اور یہ سوچنے میں مصروف ہو گیا کہ وہ بزرگ کوئی عام انسان نہیں اس کے پیچھے کوئی بہت بڑا راز ہے اور جب تک میں اس راز سے پردہ نہیں اٹھاؤں گا اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گا سلطان صلاح الدین ایوبی نے محل سے اپنے گھوڑے پر روانہ ہوا اور اس کنویں کی طرف چلا گیا کنویں اور محل کے درمیان بہت سا فاصلہ تھا سلطان نے اپنے گھوڑے کو دوڑاے رکھا اور ایک دن کے سفر کے بعد سلطان وہاں پہنچ گیا جب سلطان وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہ بزرگ پھر سے کنویں سے پانی نکال کر حوض میں ڈال رہا ہے اور بچے نہا رہے ہیں اور جب بچوں نے جی بھر کے نہا لیا تو بزرگ نے ایک ایک بچے سے دس دس سونے سکے لیے اور ان کو تب جانے دیا۔ اب سلطان صلاح الدین ایوبی یہ چھپ کر سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ پھر سے بزرگ نے رقم اپنے م تھیلی میں ڈالی اور گھوڑے پر سوار ہو گیا اب اب وہ بزرگ آگے جا رہا تھا اور سلطان صلاح الدین ایوبی اس کا پیچھا کر رہا تھا۔۔۔
پیچھا کرتے کرتے وہ بزرگ ایک جنگل کے بیچ میں گیا سلطان بڑا حیران ہوا کہ یہ جنگل کے بیچ میں کیا کرنے آیا ہے پھر سلطان نے سوچا کہ شاید یہ سونا اسی جنگل میں چھپاتا ہو گا لیکن تھوڑی دیر میں سلطان نے دیکھا کہ اس آدمی نے ایک جگہ سے جھاڑیاں ہٹائی اور اس جھاڑیوں کے نیچے سے ایک سرنگ موجود تھی وہ بزرگ اس سرنگ کے اندر چلا گیا اور پھر سے سرنگ کا دروازہ بند کر دیا وہ بزرگ سمجھا کہ شاید اسے کوئی نہیں دیکھ رہا لیکن سلطان صلاح الدین یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی نے گھوڑے کو باندھا اور اس سرنگ کے دروازے پر پہنچا اور دروازہ کھول کر سرنگ کے اندر چلا گیا جب سلطان داخل ہوا تو وہ بزرگ حساب لگا رہا تھا۔ اتنے میں سلطان صلاح سر پر پہنچ گیا اور کہا کہ اب تمہیں میں بھاگنے کی اجازت نہیں دوں گا تم میرے سوالوں کے جواب دے دو تب تمہاری جان بخشوں گا تو اس بزرگ نے کہا کہ یہ جان میری ہے کب کہ تم مجھے بخشو گے یہ جان دی بھی اللہ نے ہے اور لے گا بھی وہی تم کون ہوتے ہو مجھ سے میری جان لینے والے یہ سن کر سلطان بڑا حیران ہوا کہ آخر یہ بزرگ ہے کیا چیز کہ اس کو اللہ پر اتنا یقین اور پھر دوسری طرف ہر برائی کے پیچھے بھی یہی ہوتا ہے تو سلطان نے اس سے پوچھا کہ مجھے بتاؤ کہ تم کون ہو اور تمہارا مقصد کیا ہے تو اس نے کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں میرا مقصد مظلوموں کی مدد کرنا ہے سلطان نے کہا کہ تم اپنی بات مجھے تفصیل سے بتاؤ مجھے تمہاری ایک بھی بات کی سمجھ نہیں آرہی تو اس بزرگ نے کہا تم بتاؤ تم کیا پوچھنا چاہتے ہو تو سلطان صلاح الدین نے کہا کہ میں سلطان صلاح الدین ایوبی ہوں یہ سن کر وہ بزرگ کا نپنے لگا اور کہا سلطان معظم آپ اور یہاں تو سلطان نے کہا کہ میرا قافلہ ایک دن یہاں سے گزرا تو ہم نے آپ کے کنویں پر پانی پیا تو اپ نے ہمیں پانی پینے کے بدلے میں ایک سکہ بھی نہیں لیا جبکہ تم ان حوض میں نہانے والوں بچوں سے تم 10 دس دس سکے لے رہے تھے اخر اس کے پیچھے کیا راز ہے اور پھر تم اس بازار میں بچوں کو مفت میں کھانا کیوں کھلا رہے تھے اور تیسری بات کہ تم نے اس گاؤں میں چوری کیوں کی کیونکہ جس آدمی نے تمہاری گردن پر تلوار رکھی تھی وہ بھی میں تھا اس بازار میں بھی میں نے دیکھا تھا تو وہ بزرگ کہنے لگا سلطان معظم چند سال پہلے اس بازار پر حملہ ہوا اور اس حملے کی وجہ سے بہت سارے تاجر مارے گئے اور جیسے ہی دوسرے تاجروں نے دیکھا کہ ان کی دکانوں کے کوئی وارث نہیں تو انہوں نے ان شہید تاجروں کی دکانوں پر قبضہ کر کے سب چیزیں اپنے قبضے میں لے لی اب ان شہید تاجروں کے چھوٹے چھوٹے بچے اور بیویاں بھوک سے مرا رہی تھیں جب میں نے یہ سارا منظر دیکھا تو میں م نے اپنے دل میں سوچا کہ اس دنیا میں ہم کیا کرنے آئے ہیں میں نے اپنے دکان کا جتنا بھی منافع ہوتا تھا میں ان تاجروں کے بچوں کے کھانے کا بندوبست کرتا لیکن میری دکان چھوٹی تھی اس میں اتنا منافع نہیں آتا تھا کہ ان سے ان تمام کا پیٹ بھر سکوں ایک دن میں سوچتے سوچے اسی کنویں پر جا پہنچا تو دیکھا کہ اس حوض میں بچے کنویں سے پانی نکال کر اس میں ڈالتے ہیں اور پھر نہانے لگ جاتے ہیں جب میں نے ان بچوں کو کہا کہ اگر میں تمہیں پانی کنویں سے نکال کر نہلاؤں تو کیا تم مجھے اس کے بدلے میں کیا دے سکتے ہو تو انہوں نے کہا تم جو چاہو گے تمہیں ملے گا کیونکہ ہمارے بابا بہت اچھا کماتے ہیں جب میں نے معلوم کیا تو مجھے پتہ چلا کہ یہ بچے ان تمام تاجروں کے ہیں جنہوں نے ان شہید تاجروں کی دکانوں پر قبضہ کر رکھا ہے تو مجھے اس وقت خیال آیا اور میں نے انہیں کہا کہ اگر تم نے آج کے بعد اس حوض پر نہانا ہے تو تمہیں ایک بچے کو دس سکے دینے ہوں گے بچوں نے کہا ٹھیک ہے اور اسی وجہ سے میں ان بچوں سے دس سونے کے سکے لیتا ہوں تو سلطان نے کہا کہ کیا تاجر اپنے بچوں کو اتنی رقم دیتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ بچوں کی وہ نہانے کی پسندیدہ جگہ ہے اور وہ ہے بچے بعد اپنے اپنے گھر سے سکے لے کر آتے ہیں اور پھر اس بزرگ نے کہا کہ وہاں سے جمع ہونے والی رقم لے کر سیدھا بازار میں جاتا ہوں اس سے اناج اور کھانے پینے کی چیزیں خرید کر تھوڑا تھوڑا ان تاجروں کے گھروں میں جا کر دیتا ہوں اور باقی جو یتیم بچے ہیں ان کو بازاروں میں کھانا کھلاتا ہوں پھر سلطان نے کہا کہ یہاں تک تو میری بات سمجھ میں آگئی لیکن تم نے اس تاجر – تاجر کے گھر میں ڈاکہ کیوں ڈالا تو بزرگ نے کہا سلطان معظم اس تاجر نے جس دکان پر قبضہ کر رکھا ہے اس تاجر کی بیٹی جوان ہو چکی ہے لیکن اس کی ماں کے پاس اسے رخصت کرنے کے لیے ایک بھی سکہ موجود نہیں تھا جب مجھے پتہ چلا کہ اسے اس تاجر کو کاروبار میں بہت سارا نفع آیا تو میں نے اسی وقت سوچ لیا کہ وہ سارا نفع میں اس سے چھین کر اس تاجر کی بیوی کو دوں گا اور اس سے وہ اپنی بیٹی کو رخصت کرے گی اور اس لیے میں نے اپنی جان پر کھیل کر اس تاجر کے گھر میں ڈاکہ ڈالا اور وہ رقم چرا کر لے گیا اور جا کر وہ رقم میں نے اس تاجر کی بیوی کو دی جس کی دکان پر اس دوسرے تاجر نے قبضہ کر رکھا تھا اور اس تاجر کی بیوی نے اپنی بیٹی کو رخصت کر دیا جب یہ بات سلطان صلاح الدین نے سنی تو بڑا حیران ہوا اور کہا کہ میں تو تمہیں بڑا مجرم سمجھ رہا تھا لیکن حقیقت تو اللہ ہی جانتا ہے اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے حقیقت سے پردہ اٹھا دیا اب سلطان نے کہا کہ بے شک تمہارا مقصد صحیح ہے لیکن طریقہ غلط ہے اگر تم اسی وقت سلطان صلاح الدین کی عدالت میں آتے تو تمہیں ضرور انصاف ملتا اور میں ان تاجروں کو ان کی ان سے دکانیں لے کر ان کے حقداروں کو ضرور دلاتا تو اس بزرگ نے کہا سلطان معظم آپ تک پہنچتے پہنچتے ادھر تاجروں کے بچے بھوک سے مر جاتے تو پھر آپ کے پاس آنے کا کیا فائدہ اس کے بعد سلطان صلاح الدین نے کہا کہ اب کے بعد کوئی بھی بھوکا نہیں سوئے گا اس کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے واپس اگر کمانداروں کو حکم دیا کہ جن جن تاجروں نے دکانیں چھینی وہ دکانیں واپس لے کر ان تاجروں کی بچوں اور بیویوں کے حوالے کر دو اور تاجروں کو قاضی کی عدالت میں حاضر کرو تا کہ قاضی صاحب ان کو سزادے سکے اور اسی طرح سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس بزرگ کو کا شاہی خزانے سے چندہ لگا دیا تا کہ وہ ہر جگہ غریب بچوں کو کھانا کھلا سکے اور ان کمانداروں نے تاجروں سے وہ دکانیں لے کر ان شہید تاجروں کی بیوی بچوں کے حوالے کر دیں اور ان ظالم تاجروں کو قاضی صاحب نے سزا سنادی اور اس طرح سلطان کی کوششوں کی وجہ سے ظلم کا خاتمی ہو گیا انصاف کی بنیاد رکھی اور پھر ساری زندگی سلطان کا مقصد انصاف قائم کرنا تھا اور اس مشکل سفر میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ نے اللہ کی مدد سے کامیابی حاصل کر لی۔۔۔ دوستوں امید ہے کہ آپ کو سلطان صلاح الدین ایوبی کی عقلمندی اور بہادری کا یہ واقعہ اچھا لگا ہو گا –
