بادشاہوں کے بادشاہ حضرت عمر فاروقؓ اور ایک غلام کا عجیب واقعہ
یہ واقعہ حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت کا ہے، جب اسلامی سلطنت دنیا کے ایک بڑے حصے پر پھیل چکی تھی۔ حضرت عمرؓ کی شخصیت ایک ایسی مثال تھی جس میں عدل، تقویٰ، اور عاجزی کے تمام پہلو نمایاں تھے۔ ان کا طرز زندگی اس قدر سادہ تھا کہ بڑے سے بڑا حکمران بھی ان کے سامنے عاجز ہو جاتا تھا۔
واقعہ کا آغاز
ایک دن حضرت عمرؓ مدینہ منورہ کی گلیوں میں عام لباس پہنے ہوئے چکر لگا رہے تھے۔ یہ ان کا معمول تھا کہ راتوں کو گلیوں میں گشت کرتے تاکہ رعایا کے حالات جان سکیں۔ اچانک ان کی نظر ایک غلام پر پڑی جو سخت گرمی میں زمین پر بیٹھا ہوا تھا اور کھانے کے چند ٹکڑوں کو اپنے آنسوؤں کے ساتھ کھا رہا تھا۔
حضرت عمرؓ اس کے قریب گئے اور نرمی سے پوچھا، “بھائی، کیا بات ہے؟ کیوں تمہارے دل میں اتنی بےچینی ہے؟”
غلام نے حضرت عمرؓ کی طرف دیکھا، لیکن انہیں پہچانا نہیں۔ اس نے کہا، “تم کون ہو جو میرے دکھ کو سمجھنے آئے ہو؟ کیا تم میرے مالک کو انصاف دلوا سکتے ہو؟”
غلام کی شکایت
حضرت عمرؓ نے اسے تسلی دی اور کہا، “اپنی بات مجھے بتاؤ، شاید میں تمہاری مدد کر سکوں۔”
غلام نے آہ بھری اور کہا، “میں ایک غلام ہوں۔ میرے مالک نے مجھ پر بےجا ظلم کیا ہے۔ وہ مجھ سے دن رات کام لیتا ہے، اور اگر میں ذرا سی دیر کرتا ہوں تو مجھے مارتا ہے۔ آج بھی اسی وجہ سے میں بھوکا ہوں اور اس نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے۔”
حضرت عمرؓ کا دل یہ سن کر بھر آیا۔ انہوں نے پوچھا، “کیا تم اپنے مالک کو عدالت میں لے جانے کی ہمت رکھتے ہو؟”
غلام نے مایوسی سے کہا، “میں ایک غلام ہوں، اور وہ میرا مالک۔ کون میری بات سنے گا؟”
انصاف کا آغاز
حضرت عمرؓ نے کہا، “تمہاری بات ضرور سنی جائے گی۔ آؤ میرے ساتھ۔”
غلام حیران ہو کر ان کے ساتھ چل پڑا۔ حضرت عمرؓ اسے لے کر سیدھے مسجد نبوی پہنچے، جہاں انہوں نے لوگوں کو جمع کیا اور اعلان کیا، “جو کوئی اس غلام کا مالک ہے، وہ فوراً یہاں آئے۔”
تھوڑی دیر بعد ایک آدمی آیا، جس کے چہرے پر غرور نمایاں تھا۔ حضرت عمرؓ نے اسے دیکھا اور کہا، “کیا یہ غلام تمہارا ہے؟”
اس نے کہا، “ہاں، یہ میرا غلام ہے۔ لیکن آپ کون ہیں جو اس معاملے میں دخل دے رہے ہیں؟”
حضرت عمرؓ نے اپنی شناخت ظاہر کی، “میں عمر بن خطاب ہوں، امیر المؤمنین۔ اور آج یہ غلام تمہارے خلاف شکایت لے کر آیا ہے۔”
غلام کی گواہی
غلام نے اپنی بات امیر المؤمنین کے سامنے پیش کی۔ وہ رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا، “یا امیر المؤمنین، یہ مجھے انسان نہیں سمجھتا۔ یہ مجھے جانوروں کی طرح رکھتا ہے اور میرا حق چھینتا ہے۔”
حضرت عمرؓ نے مالک سے کہا، “کیا یہ سچ ہے؟”
مالک نے بہانے بناتے ہوئے کہا، “یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ یہ کام چور ہے اور نافرمان ہے۔”
حضرت عمرؓ کا فیصلہ
حضرت عمرؓ نے فرمایا، “اسلام میں غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ تمہاری ملکیت نہیں بلکہ اللہ کی امانت ہے۔ اگر تم اسے انسان نہیں سمجھتے تو میں تمہیں سزا دوں گا۔”
مالک جھک گیا اور معافی مانگنے لگا۔ حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ غلام کو آزاد کیا جائے اور اسے مناسب معاوضہ دیا جائے۔
غلام کا ردعمل
غلام نے حضرت عمرؓ کے قدموں میں گر کر کہا، “یا امیر المؤمنین، آج آپ نے میرے لیے وہ کیا جو کوئی نہیں کرتا۔ آپ سچ میں بادشاہوں کے بادشاہ ہیں۔”
حضرت عمرؓ نے اسے اٹھایا اور کہا، “نہیں بھائی، میں کچھ نہیں۔ اصل بادشاہ تو اللہ ہے۔ میں تو بس اس کا ایک عاجز بندہ ہوں۔”
نتیجہ
یہ واقعہ مدینہ کے لوگوں کے لیے ایک سبق بن گیا۔ اس نے نہ صرف عدل کی مثال قائم کی بلکہ یہ بھی دکھایا کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک ایک غلام کی عزت بھی ایک بادشاہ کے برابر تھی۔ اس واقعے نے اسلام کی روح کو واضح کیا کہ ہر انسان برابر ہے اور ظلم کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔
یہ واقعہ آج بھی عدل اور انسانیت کی ایک زندہ مثال ہے، جو ہماری روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے اور ہمیں حضرت عمرؓ کی شخصیت سے سبق لینے پر مجبور کرتا ہے۔