Hazrat Umar (R.A) Aur Aik Isai Padri Ka Waqia – Hazrat Umar Farooq Story – Stories In Urdu

Hazrat Umar Or isai Padri Ka Waqia
Hazrat Umar Or isai Padri Ka Waqia

حضرت عمر فاروق رضی

مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اسلام کی تاریخ میں بہت بلند مقام اور مرتبہ حاصل ہے۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے وہ قبیلہ قریش کے معزز اور بہادر نوجوانوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے اسے چھپایا نہیں بلکہ کھلے بندوں میں اپنے اسلام کا اعلان کیا اور سب مسلمانوں کو ساتھ لے کر حرم شریف (کعبہ) میں جاکر نماز پڑھی۔ ان کی جرات اور بے خوفی ہی تھی کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو فاروق کا لقب عطا فرمایا۔ فاروق کا مطلب ہوتا ہے حق اور باطل یا سچ اور جھوٹ میں فرق (تمیز کرنے والا۔ تاریخ میں انہوں نے فاروق اعظم کے لقب سے شہرت پائی۔ یہ لقب ملنے سے پہلے انہیں عمر بن خطاب ہی کہا جاتا تھا اور قریش کے دوسرے لوگوں کی طرح ان کا پیشہ بھی تجارت تھا اور وہ کبھی کبھی اس سلسلے میں دوسرے ملکوں کے سفر کرتے رہتے تھے۔ اسلام قبول کرنے سے کئی سال پہلے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک دفعہ ایک تجارتی قافلے کے ساتھ مال لے کر مکہ سے شام کئے۔ قافلے میں قریش کے کئی اور بڑے سردار بھی شامل تھے۔ یہ قافلہ شام کے سب سے بڑے شہر دمشق گیا اور وہاں اپنا مال بیچ کر واپس مکہ کی طرف روانہ ہوا۔ تھوڑا سا فاصلہ طے کرنے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو یاد آیا کہ ان کی ایک رشتہ دار خاتون نے انہیں کچھ سونا دیا تھا کہ اُسے بیچ کر اس کے لیے کچھ کپڑے وغیرہ لیتے آئیں۔ انہوں نے اپنے قافلہ کے ساتھیوں سے کہا کہ میں فلاں عورت کا کام کرنے واپس دمشق جا رہا ہوں، کوشش کرونگا کہ یہ کام کر کے جلد واپس آ جاؤں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ دمشق واپس کئے

تو بازار بند ہو چکے تھے۔ مجبوراً وہ ایک سرائے میں ٹھہر کئے اور سو گئے۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد اللہ کا ایک بندہ سرائے میں آیا اس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جگایا اور اپنے ساتھ گھر لے گیا۔ معلوم نہیں یہ نیک آدمی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پہلے سے جانتا تھا۔ حضرت عمر پہلے بھی کئی بار دمشق آچکے تھے۔ یا ان کے والد خطاب سے اس کی کوئی واقفیت تھی اُس نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی بڑی خاطر مدارت کی۔ کھانا کھا کر وہ تو سو کئے اور اُن کا میزبان رات بھر عبادت کرتا رہا۔ صبح کو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بیدار ہوئے تو ان کے میزبان نے کہا کہ اکیلے بازار نہ جانا بازار میں لٹیرے اکثر مسافروں کو لوٹ لیتے ہیں، میرے ساتھ چلنا۔ یہ کہہ کر وہ سو گیا کیونکہ رات بھر وہ جاگتا رہا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے جگانا مناسب نہ سمجھا اور اکیلے بازار چلے گئے۔ ابھی بازار کھلا نہ تھا وہ بازار کھلنے کا انتظار کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد ایک عیسائی پادری اپنے نوکروں کے ساتھ آیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف اشارہ کر کے اپنے نوکروں کو حکم دیا: اس شخص کو پکڑ لو یہ گرجے کا کام بہت اچھی طرح کر لے گا۔ اُس زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بڑے تنو مند پہلوان تھے۔ پادری کے نوکروں نے ان کو پکڑ لیا اور ایک پرانے گرجے میں لے کئے پادری نے ان کو ایک ہتھوڑا دیا اور ان کو گرجے کی دیوار توڑنے پر لگا دیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس کی جگہ نیا گر جا بنوانا چاہتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ دن بھر کام کرتے رہے کہیں شام کو جا کر چھٹی ملی اور وہ تھکے ہارے سرائے میں آکر بیٹھ گئے۔ پہلے دن والا نیک آدمی پھر آیا اور ان سے پوچھا آپ کدھر چلے کئے تھے ؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اُسے سارا قصہ سنایا تو وہ انہیں پھر اپنے گھر لے گیا اور ان کی بڑی خاطر مدارت کی اور انہیں تاکید کی کہ کل بازار جاتے وقت مجھے ساتھ لے جانا اس کے بعد وہ عبادت میں مشغول ہو گیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سو گئے۔ دوسرے دن آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ بیدار ہوئے تو اپنے نیک میزبان کو سوتے پایا انہوں نے اب کی بار بھی اس کو جگانا مناسب نہ سمجھا اور اکیلے بازار چلے گئے۔ اتفاق سے پھر وہی پادری اپنے نوکروں کے ساتھ آیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو پکڑ کر لے گیا۔ ان کو غصہ تو بہت آیا لیکن کیا کرتے غیر ملک میں وہ اکیلے تھے اور کوئی ہتھیار بھی پاس نہیں تھا۔ دوسری طرف پادری کے ساتھ سات آٹھ نوکر بھی تھے اور سب ہتھیار بند تھے۔ پہلے دن کی طرح حضرت عمر ہتھوڑے کے ساتھ گرجے کی دیوار توڑتے رہے جب دھوپ تیز ہوئی تو پادری اور اس کے نوکروں نے کام میں مشغول دیکھ کر چلے گئے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ دیوار کے سائے میں دم لینے کے لئے بیٹھ گئے۔ اتنے میں وہ پادری گھوڑے پر سوار چپکے سے آیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے سر پر ایک کوڑا مار کر کہا ہم سب گھر کئے اور تو نے کام کرنا چھوڑ دیا اب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو صبر کی تاب نہ رہی۔ انہوں نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی ہر طرف سناٹا تھا انہوں نے پادری کو گھوڑے سے کھینچ کر نیچے گرا لیا اور اس کے سر پر ہتھوڑے پر ہتھوڑا مارنا شروع کر دیا۔ وہ بہت چیخنا چلایا لیکن کوئی اس کی مدد کے لیے نہ پہنچا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ٹوٹی ہوئی دیوار کا ایک بھاری ٹکڑا اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا وہ پہلے ہی زخمی تھا اب اس نے دم دے دیا۔ اس کو مرتے دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ تیزی سے بھاگ کھڑے ہوئے اور جس راستے سے دمشق آئے تھے وہ راستہ چھوڑ کر ایک دوسرے راستے پر چل پڑے۔ شہر سے کافی دور انہیں خچر پر سوار ایک رومی ملا اور ان کے ساتھ چلنے لگا وہ کچھ باتیں کرنے لگا لیکن نہ آپ رضی اللہ اس کی زبان سمجھتے تھے اور نہ وہ ان کی زبان سمجھتا تھا۔ اس نے یکا یک اپنی تلوار پر ہاتھ ڈالا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سمجھ کئے کہ وہ ان پر وار کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے فوراً اسے خچر سے کھینچ لیا اور اس سے تلوار چھین کر اس کے ایک ہی وار سے اس کا کام تمام کر دیا پھر اس کے خچر پر سوار ہو کر آگے چل دیے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ اس کا حال خود حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اس طرح بیان کیا ہے : اس جگہ سے روانہ ہو کر میں ایک گرجا گھر کے پاس پہنچا یہاں عیسائیوں کی ایک جماعت رہتی تھی۔ میں گرجے کے اندر داخل ہوا تو گرجے میں رہنے والے سب لوگ میرے ارد گرد جمع ہو گئے اور مجھ سے میرے حالات کے بارے میں پوچھنے لگے۔ پھر وہ اپنے اسقف (عیسائی عالم) کے پاس کئے اور اُسے میرے گرجے میں آنے کی اطلاع دی۔ اسقف میرے پاس آیا اور مجھے نہایت غور سے دیکھنے کے بعد کہنے لگا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں کسی چیز کا خوف ہے میں نے کہا تم نے کیسے اندازہ کیا کہ مجھے کسی چیز کا خوف ہے؟ اُس نے میرے سوال کو ٹال دیا اور کہا آپ جب تک چاہیں یہاں ٹھہریں آپ کو یہاں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں کیونکہ آپ ہماری حفاظت میں ہیں۔ پھر اسقف نے مجھے اپنے گھر میں مہمان کی طرح رکھا اور میری نہایت خاطر مدارات کی پھر پوچھا: آپ کون ہیں؟ میں نے اسے بتایا کہ میں مکہ کا رہنے والا ہوں اور قبیلہ قریش سے تعلق ہے ایک تجارتی قافلے کے ساتھ شام آیا تھا تجارت کا مال بیچنے کے بعد اپنے ایک ضروری کام کے لئے مجھے اپنے قافلے سے جدا ہو کر واپس دمشق جانا پڑا اب میں اپنے وطن واپس جا رہا ہوں راستہ بھٹک کر ادھر آنکلا ہوں۔ اسقف مجھے غور سے دیکھتا رہا اور بار بار طرح طرح کے سوالات کرتا رہا میں نے اس کے یہاں نہایت آرام سے رات بسر کی۔ صبح کو اس نے پوچھا آپ کا ارادہ ابھی یہاں ٹھہرنے کا ہے یا آگے جانے کا؟ میں نے کہا میں اب آپ سے رخصت ہونا چاہتا ہوں۔ یہ سن کر اسقف اپنا شاندار گدھا جو بڑا خوبصورت اور نہایت تیز رفتار تھا لے آیا۔ اس پر پالان کسا اور خرجیاں لادیں جن میں کھانے کی مزیدار چیزیں اور قیمتی تحفے بھرے ہوئے تھے۔ ( خرجیاں ان تھیلوں کو کہتے ہیں جو گدھے کی پیٹھ پر سامان کے لیے باندھ دیتے ہیں) پھر اس نے کہا آپ اس گدھے پر سوار ہو جائیں اور چل پڑیں راستے میں آپ کا گزر کسی عیسائی کے مکان کے پاس ہو گا تو وہ آپ کو اس گدھے پر سوار دیکھ کر آپ کی بے حد تعظیم کرے گا اور آپ کی خاطر مدارات میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے گا۔ یہ کہہ کر اسقف نے میرا ہاتھ پکڑا اور تنہائی میں لے جا کر کہنے لگا اے عمر آپ پر میرا حق واجب ہو گیا۔ میں نے کہا بے شک اس نے کہا آپ کا تعلق ایک معزز قوم سے ہے۔ میری آپ سے ایک غرض ہے میں نے کہا آپ بیان کریں لیکن حیرت کی بات ہے کہ آپ جیسا بڑا آدمی مجھ جیسے پریشان حال مسافر سے کوئی غرض رکھتا ہو اس نے بڑے یقین بھرے لہجے میں کہا سنیں ! میں ایک ایسا آدمی ہوں جسے اللہ تعالی نے آسمانی کتابوں کا علم عطا کیا ہے۔ میں نے آپ کی ذات میں بہت سی ایسی نشانیاں دیکھیں ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ جب ایک مقررہ مدت پوری ہو جائے گی تو حالات میں زبر دست تبدیلی آئے گی اس وقت آپ ہمارے ملک کے حاکم بن جائیں گے اور یہاں کے سب شہروں میں آپ ہی کا حکم چلے گا۔ پھر اسقف نے اپنی جیب سے روات قلم اور کا اور کاغذ نکالی اور کہا: میری غرض یہ ہے کہ آپ اس کاغذ پر لکھ دیں کہ اس گرجے اور اس کی جائیداد پر جزیہ یا اور کسی قسم کا حکومتی محصول معاف ہوگا۔ میں نے حیران ہو کر اسقف سے کہا آپ مجھ سے مذاق تو نہیں کر رہے؟ اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل نازل فرمائی میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ بالکل سچ ہے آپ مہربانی فرمائیں اور میری درخواست قبول فرمائیں۔ میں نے اسقف کی باتوں کو اس کا وہم سمجھا اور جس طرح اس نے کہا اس طرح لکھ کر کاغذ اس کو دے دیا اور گدھے پر سوار ہو کر وہاں سے چل پڑا۔ راستے میں مجھے کئی جگہ عیسائیوں کی جماعتیں ملیں، انہوں نے اسقف کے گدھے پر مجھے سوار دیکھ کر میری بڑی خاطر مدارات کی۔ میں اس طرح جگہ جگہ عیسائیوں کا مہمان بنتا تبوک پہنچ گیا۔ (تبوک شام اور عرب کی سرحد کے قریب ایک قصبہ ہے) اللہ تبارک و تعالی کی شان جس تجارتی قافلے کے ساتھ میں گیا تھا وہ کافی دیر میرا انتظار کرنے کے بعد اس جگہ سے چل پڑا تھا جہاں میں نے اسے چھوڑا تھا۔ اور اب تبوک میں ایک کنویں کے قریب ڈیرہ ڈالے ہوئے تھا۔ قافلے والے میرے ساتھی مجھے دیکھتے ہی میری طرف دوڑ پڑے۔ وہ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے اے ابن خطاب ہم لوگ تمہارا انتظار کرتے کرتے بلکل مایوس ہو گئے تو ہم نے اس مقام سے کوچ کر دیا جہاں سے تم واپس دمشق کئے تھے۔ مگر تمہارے بارے میں ہم سخت پریشان تھے۔ یہ تو بتاؤ اتنے دن تم کہاں رہے؟ میں نے وہ تمام حالات بیان کیے جو مجھے پیش آئے تھے لیکن اسقف سے میری جو گفتگو ہوئی تھی وہ بالکل ظاہر نہ کی کیونکہ میں اسقف کی باتوں کو اس کا وہم اور اس کے عقیدے کی کمزوری سمجھتا تھا۔ قریش کے ایک سردار ابو سفیان بھی اس قافلے میں شامل تھے انہوں نے مجھے اس شاندار گدھے پر سوار دیکھ کر کہا ارے تم لوگ اس نوجوان کی اقبال مندی تو دیکھو اسے کسی ایسے میدان میں چھوڑ دیا جائے جہاں نہ پانی ہو اور نہ سبزہ، پھر بھی اسے رزق مل جائے گا۔ اسقف نے رخصت کرتے وقت مجھ سے کہا تھا کہ جب میں اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچ جاؤں اور گدھے کی ضرورت نہ رہے تو اس کی رسی کو خرجیوں میں رکھ کر اور خرجیوں کو مضبوطی سے باندھ کر گدھے کو اسی جگہ چھوڑ دو۔ میں نے ایسا ہی کیا یہ دیکھ کر ابو سفیان نے کہا ارے یہ تم نے کیا کر دیا گدھے کو ایسی جگہ چھوڑ دیا جہاں سے چور اور درندے اکثر گزرتے رہتے ہیں میں نے کہا کہ اس کے مالک نے مجھے ایسا ہی کرنے کی ہدایت کی تھی، وہی اس کی عادتوں سے زیادہ واقف ہے۔ وہاں سے روانہ ہو کر ہمارا قافلہ مکہ پہنچا میرے اور اسقف کے درمیان جو گفتگو ہوئی تھی وہ مجھے بھلائے نہ بھولی تھی۔ پہلے تو کئی دن میں نے اُسے دل ہی دل میں رکھا لیکن پھر مجھ سے ضبط نہ ہو سکا اور میں نے یہ راز اپنی اس رشتہ دار خاتون کے سامنے ظاہر کر دیا جس نے مجھے سونا دیا تھا۔ وہ بڑی عقل مند خاتون تھی۔ اس نے مجھ سے کہا اے ابن خطاب میں تمہارے بچپن ہی سے تم میں اچھی نشانیاں دیکھ رہی ہوں۔ تم جب بہت چھوٹے بچے تھے تو میں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ تم لمبے ہوتے جا رہے ہو اور تمہارا قد اتنا لمبا ہو گیا ہے کہ اس نے آسمان کو چھو لیا یہ دیکھ کر میں نے خواب میں کہا: ارے یہ میرے بچے کی کیا حالت ہے؟ کسی نے کہا یہ لڑکا جلد ہی دنیا اور آخرت میں بھلائی پانے والا بنے گا۔ جاہلیت کے زمانے میں اس قسم کی باتوں کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آتا تھا مکہ میں ایک شخص اہل کتاب یہود اور نصاریٰ میں سے تھا جو بہت گمنام تھا عام لوگ تو اس سے واقف نہیں تھے لیکن قریش کے سردار اسے پہچانتے تھے اور اس کی بہت عزت کرتے تھے ایک دن میں دوپہر کے وقت اس کے یہاں گیا اور اس کے مکان پر پہنچ کر اسے آواز دی؛ ذرا دروازہ کھولیے مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے۔ اس نے دروازہ کھول دیا۔ میں نے اس سے کہا میں آپ سے چند باتیں کرنا چاہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ان کو آپ اپنے دل میں راز بنا کر رکھیں اور کسی کے سامنے ان کو ظاہر نہ کریں۔ اس نے ایسا کرنے کا وعدہ کیا تو میں نے اپنے سفر کے تمام واقعات اس کے سامنے بیان کر دیے اور اپنے رشتہ دار خاتون کے خواب کا ذکر بھی کر دیا۔ جب میں اپنی گفتگو ختم کر چکا تو اس نے کہا: اے ابن خطاب ! جس کو تم نے معافی کا وعدہ لکھ کر دیا وہ اس زمانے میں عیسائیوں کا سب سے بڑا عالم ہے، اور جو کچھ اس نے کہا وہ سب کچھ سچ ہے اور جلد ہی وہ تمہارے سامنے آجائے گا جہاں تک تمہاری رشتہ دار خاتون کے خواب کا تعلق ہے تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مکہ میں ایک بہت بڑا انقلاب آئے گا۔ زمانہ ایک نئی صورت اختیار کرے گا اور آنے والے زمانے کے آسمان و زمین بدل جائیں گے۔ میں وہاں سے گھر چلا آیا اور اس کی ساری باتیں اپنے دل میں لیے رہا۔

تھوڑے ہی عرصہ کے بعد

تھوڑے ہی عرصہ کے بعد قریش کی مجلسوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہونے لگا یہ لوگ اس بات پر ناک بھوں چڑھاتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے آپ کو اللہ کا رسول کہتے ہیں، لوگوں کو بتوں کی پوجا سے منع کرتے ہیں اور ایک اللہ تعالی کو ماننے پر زور دیتے ہیں۔ جلد ہی اللہ تعالی نے اسلام کو ظاہر کر دیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ حالات وہی صورت اختیار کر رہے ہیں جن کی طرف آسمانی کتابوں کے عالم شام اسقف نے اشارہ کیا تھا۔ یہاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ختم ہو جاتا ہے۔ نبوت کے چھٹے سال حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام قبول کر لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانثار ساتھی بن گئے۔ سن 11 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دنیا سے پردہ فرمایا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ بنے سن 13 ہجری میں انہوں نے وفات پائی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ بنے۔ ان کے سفر نامے کی روایت کرنے والے (راوی) کا بیان ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اپنی خلافت کے زمانے میں شام تشریف لے کئے تو ایک بہت بوڑھا آدمی جس کے بال برف کی طرح سفید ہو چکے تھے، عیسائیوں کی ایک جماعت کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے امیر المومنین کیا آپ مجھے نہیں پہچانتے؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا اگر آپ شام کے فلاں گرجے والے اسقف ہیں تو میں آپ کو پہچانتا ہوں۔ اس نے کہا: جی ہاں میں وہی اسقف ہوں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: میں نے آپ سے لکھ کر جو عہد کیا تھا وہی ابھی تک قائم ہے اللہ تعالی نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ہمیں عزت بخشی انہوں نے ہمیں اللہ تعالی کے پسندیدہ دین اسلام کی طرف دعوت دی ہم نے یہ دعوت قبول کی۔ آپ ہی نے مجھے ان باتوں سے آگاہ کیا تھا اب آپ کو کون سی چیز اسلام قبول کرنے سے روکتی ہے؟ بوڑھے اُسقف نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی باتیں سن کر اسی وقت اپنے ساتھیوں سمیت کلمہ پڑھ کر اسلام کی دولت حاصل کرلی۔ (مجمع العلمی دمشق)

Leave a Comment