حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور انصاف کا حیرت انگیز واقعہ
ایک دن مدینہ منورہ کی گلیوں میں ایک عجیب منظر دیکھنے کو ملا۔ ایک شخص حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دربار میں حاضر ہوا اور چیخ چیخ کر کہنے لگا، “اے عمر! میرے ساتھ انصاف کرو، ورنہ قیامت کے دن میں اللہ کے حضور تمہارے خلاف شکایت کروں گا!”
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نہایت سکون اور تحمل کے ساتھ اس شخص کی بات سنی اور فرمایا، “اپنی شکایت بیان کرو، ہم تمہیں انصاف دیں گے۔”
وہ شخص کہنے لگا، “امیر المومنین! میں ایک غریب مزدور ہوں اور میری روزی محنت مزدوری پر منحصر ہے۔ لیکن ایک امیر آدمی نے میری زمین پر قبضہ کر لیا ہے اور اب مجھے وہاں سے بے دخل کر دیا ہے۔ کیا یہ انصاف ہے؟”
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں غصے کی چمک آ گئی۔ آپ نے فوراً اس امیر شخص کو دربار میں طلب کیا۔ جب وہ شخص حاضر ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے سخت لہجے میں پوچھا، “کیا یہ سچ ہے کہ تم نے اس غریب شخص کی زمین پر قبضہ کر لیا ہے؟”
امیر شخص نے تھوڑا جھجھکتے ہوئے کہا، “امیر المومنین! وہ زمین میری ہے، اور میں نے اس سے کوئی ظلم نہیں کیا۔”
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فوراً حکم دیا کہ معاملے کی مکمل تحقیقات کی جائیں۔ جب تحقیق مکمل ہوئی تو یہ ثابت ہو گیا کہ امیر شخص نے واقعی غریب مزدور کی زمین پر قبضہ کیا تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسی وقت فیصلہ سنایا: “یہ زمین فوراً اس غریب شخص کو واپس لوٹا دی جائے، اور اگر دوبارہ ایسی حرکت کی گئی تو تمہیں سخت سزا دی جائے گی۔”
اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، “یاد رکھو! اگر کوئی کمزور اور غریب اپنی زمین پر بھی حق نہ رکھ سکے تو یہ عمر کے لیے شرم کی بات ہے۔”
غریب شخص نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دعائیں دیں اور کہا، “آپ واقعی اللہ کے عطا کردہ انصاف کے علمبردار ہیں۔”
یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا نظام انصاف پر مبنی تھا، جہاں نہ امیری کی کوئی اہمیت تھی اور نہ ہی طاقت کی۔ ہر انسان، خواہ غریب ہو یا امیر، برابر کا حق رکھتا تھا۔ آپ کی شخصیت آج بھی انصاف، مساوات اور انسانیت کا عظیم نمونہ ہے۔
========\\\\========
2
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دل دہلا دینے والا واقعہ
مدینہ منورہ کی گلیاں پرسکون تھیں، اور رات کا اندھیرا ہر طرف چھا چکا تھا۔ لوگ اپنے گھروں میں سو رہے تھے، لیکن امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دل میں سکون نہ تھا۔ آپ اکثر رات کے وقت اپنے کاندھے پر ایک تھیلا رکھ کر مدینے کی گلیوں میں گھومتے تاکہ اپنی رعایا کے حالات جان سکیں۔
ایک رات، آپ معمول کے مطابق مدینے کے باہر موجود بستی کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں ایک کچے مکان کے اندر سے بچوں کے رونے کی آواز آئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رک گئے اور سوچا کہ ان کے گھر کا حال معلوم کیا جائے۔ دروازے کے قریب پہنچ کر آپ نے اندر جھانکا تو ایک عورت کو دیکھا جو چولہے پر ایک خالی ہنڈیا رکھے بیٹھی تھی، اور بچے اس کے ارد گرد بھوک سے بلک رہے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ عورت باہر آئی اور نہایت تھکی ہوئی آواز میں بولی، “کون ہے؟”
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نرمی سے کہا، “میں ایک مسافر ہوں۔ کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟”
عورت نے کہا، “یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ میرے بچے بھوکے ہیں، اور میں ان کے دل کو بہلانے کے لیے خالی ہنڈیا چلا رہی ہوں تاکہ وہ یہ سمجھیں کہ کھانا پک رہا ہے۔”
یہ سن کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دل بھر آیا۔ آپ نے آنکھوں میں آنسو لیے فوراً واپس بیت المال کی طرف دوڑے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے کھانے کا ایک تھیلا اپنے کندھے پر رکھا۔ آپ کے خادم نے کہا، “امیر المومنین! یہ بوجھ مجھے اٹھا لینے دیں۔”
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا، “قیامت کے دن میرا بوجھ تم نہیں اٹھا سکتے، یہ میرا فرض ہے۔”
آپ اس تھیلے کو لے کر دوبارہ اس عورت کے گھر پہنچے اور اپنے ہاتھوں سے چولہے میں آگ جلائی۔ کھانے کے پکنے کے بعد آپ نے بچوں کو کھلایا۔ جب بچے کھا کر خوش ہو گئے تو عورت نے کہا، “اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ آپ عمر سے بہتر حکمران ہوتے!”
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خاموشی سے یہ بات سنی اور مسکراتے ہوئے واپس مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ یہ واقعہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہ صرف ایک عظیم حکمران تھے بلکہ ایک حقیقی خادم بھی تھے، جو اپنی رعایا کے دکھ درد کو اپنا سمجھتے تھے۔