Hazrat Umar Farooq Ka Insaaf Ka Waqia – Hazrat Umar (R.A) Ka Waqia

حضرت عمر کی عدالت: ایک منفرد واقعہ جہاں قاتل کو عزت کے ساتھ معاف کیا گیا

مدینہ منورہ کی گلیوں میں زندگی اپنے معمول پر تھی۔ لوگ اپنی زندگیوں میں مشغول تھے، لیکن حضرت عمر بن خطابؓ کی خلافت کا دور انصاف، عدل اور سخت قانون کے لیے مشہور تھا۔ ہر فرد جانتا تھا کہ حضرت عمرؓ کی عدالت میں نہ تو کسی بڑے کا اثر چلتا تھا، نہ کسی چھوٹے کی سفارش۔ ہر فیصلہ قرآن و سنت کی روشنی میں ہوتا، اور حق دار کو اس کا حق ضرور ملتا۔

مقدمہ

ایک دن ایک آدمی روتا ہوا مسجد نبوی کے دروازے پر آیا۔ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، اور وہ انصاف کی دہائی دے رہا تھا۔ اسے دیکھ کر حضرت عمرؓ نے فوراً اپنی عدالت لگائی۔
“کیا معاملہ ہے؟” حضرت عمرؓ نے سخت لہجے میں پوچھا۔
اس شخص نے کہا، “یا امیر المؤمنین، میرا بھائی قتل کر دیا گیا ہے! قاتل پکڑا گیا ہے، اور میں چاہتا ہوں کہ اسے سزا دی جائے۔”

قاتل کا پیش ہونا

چند لمحوں میں قاتل کو عدالت میں لایا گیا۔ وہ ایک نوجوان تھا، جس کے چہرے پر ندامت کے آثار نمایاں تھے۔ حضرت عمرؓ نے اس سے سوال کیا، “کیا تم نے قتل کیا ہے؟”
نوجوان نے سر جھکا کر کہا، “ہاں، میں نے قتل کیا ہے۔ لیکن یہ ایک حادثہ تھا، میرا ارادہ نہیں تھا۔”

معافی کی درخواست

حضرت عمرؓ نے مقتول کے بھائی کی طرف دیکھا اور پوچھا، “کیا تم معاف کر سکتے ہو؟”
مقتول کا بھائی غصے سے بولا، “نہیں! میں بدلہ چاہتا ہوں۔”

قاتل کی التجا

نوجوان نے آگے بڑھ کر کہا، “یا امیر المؤمنین، میرے اہل و عیال دور ایک گاؤں میں رہتے ہیں۔ اگر مجھے ابھی قتل کیا گیا تو میرے چھوٹے بہن بھائی یتیم ہو جائیں گے۔ میں اپنی ذمہ داری پوری کر کے واپس آنا چاہتا ہوں۔ اگر آپ مجھے تین دن کی مہلت دیں تو میں اپنے معاملات نپٹا کر خود واپس آ جاؤں گا اور آپ کی عدالت میں پیش ہو جاؤں گا۔”

حضرت عمرؓ کی حیرت

حضرت عمرؓ نے کہا، “تمہارے پاس کوئی ضامن ہے؟”
نوجوان نے آس پاس دیکھا اور کہا، “میرے پاس کوئی نہیں ہے۔”
یہ سن کر عدالت میں ایک خاموشی چھا گئی۔ اچانک حضرت ابوذر غفاریؓ کھڑے ہوئے اور کہا، “یا امیر المؤمنین، میں اس کا ضامن بنتا ہوں۔ اگر یہ واپس نہ آیا تو آپ مجھے اس کی جگہ سزا دے سکتے ہیں۔”

عدالت کا فیصلہ

حضرت عمرؓ نے کہا، “ٹھیک ہے، تین دن کے بعد یہ عدالت لگے گی۔ اگر نوجوان واپس نہ آیا تو ابوذرؓ کو اس کی جگہ سزا دی جائے گی۔”

نوجوان کی واپسی

تین دن گزر گئے۔ مدینہ میں سب کو یقین تھا کہ نوجوان واپس نہیں آئے گا۔ مقررہ وقت پر حضرت عمرؓ کی عدالت میں سب جمع ہو گئے۔ ابوذرؓ عدالت میں موجود تھے، اور ان کے چہرے پر سکون تھا۔
اچانک دروازے سے وہی نوجوان داخل ہوا۔ اس کے کپڑے گرد آلود تھے، اور اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔ اس نے کہا، “یا امیر المؤمنین، میں واپس آ گیا ہوں تاکہ انصاف قائم ہو۔”

معافی کا اعلان

یہ دیکھ کر مقتول کا بھائی حیران رہ گیا۔ اس نے کہا، “یا امیر المؤمنین، اگر یہ شخص بھاگ سکتا تھا، تو کیوں واپس آیا؟ اس کی سچائی اور وعدے کی پاسداری نے میرا دل بدل دیا ہے۔ میں اسے معاف کرتا ہوں!”
حضرت عمرؓ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔ انہوں نے فرمایا، “یہ اسلام کی طاقت ہے! جہاں وعدے کی پاسداری، صداقت، اور رحم دلی ایک ساتھ آتی ہیں۔”

نتیجہ

اس دن مدینہ کی گلیوں میں یہ واقعہ موضوعِ گفتگو بن گیا۔ حضرت عمرؓ کی عدالت نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ اسلام میں انصاف اور رحم دلی کے درمیان ایک خوبصورت توازن موجود ہے، اور ہر فیصلہ انسانیت کو راستہ دکھانے کے لیے ہوتا ہے۔

Leave a Comment