Hazrat Umar Bin Abdul Aziz Ki Zati Zindagi | Hazrat Umar Bin Abdul Aziz Life Story In Urdu & Hindi

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ: تین براعظموں کے حکمران کی ذاتی زندگی کا حیرت انگیز پہلو

اسلامی تاریخ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کا نام عدل، انصاف، اور زہد و تقویٰ کی اعلیٰ مثال کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ان کا دور خلافت وہ دور تھا جب تین براعظموں پر اسلامی حکومت قائم تھی، اور زکوٰۃ لینے والا کوئی نہ تھا۔ لیکن اس عظیم حکمران کی ذاتی زندگی اتنی سادہ اور قناعت پر مبنی تھی کہ یہ دلوں کو جھنجھوڑ دینے والی کہانی بن گئی۔

یہ مضمون ان کی ذاتی زندگی کے ایک ایسے واقعے پر روشنی ڈالے گا جو عید کے موقع پر پیش آیا، اور جو آج کے حکمرانوں اور عوام کے لیے ایک سبق آموز مثال ہے۔


پس منظر: تین براعظموں کا حکمران لیکن سادگی کا پیکر

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے خلافت کا عہدہ سنبھالتے ہی اسلامی حکومت کے نظام میں انقلابی تبدیلیاں کیں۔ انہوں نے اپنے طرز زندگی کو عام لوگوں کے معیار کے مطابق ڈھال لیا۔ وہ شاہی زندگی چھوڑ کر انتہائی سادگی کے ساتھ رہنے لگے اور بیت المال کو صرف امت کے مفاد میں استعمال کیا۔

یہی اصول ان کے گھر کے معاملات میں بھی واضح طور پر نظر آتا ہے۔ وہ اپنے اہل خانہ کو بھی وہی تلقین کرتے جو عوام کے لیے کرتے تھے۔ ان کے گھر میں نہ شاہی طرز کی آرائش تھی اور نہ ہی دنیاوی تعیشات۔


عید کا موقع: بچوں کی معصوم خواہش

عید قریب تھی، اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے بچے دوسرے بچوں کی طرح عید کی خوشیوں میں شریک ہونے کے لیے نئے کپڑوں کی خواہش رکھتے تھے۔ بچے اپنی ماں، فاطمہ بنت عبد الملک، کے پاس آئے اور معصومیت سے کہا:
“ماں! عید آ رہی ہے، ہمیں بھی نئے کپڑے دلوا دیں۔ کیا آپ ابا سے کہہ کر ہمیں کپڑے لے کر نہیں دے سکتیں؟”

فاطمہ، جو خود شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں لیکن سادگی اور قناعت کی علمبردار تھیں، یہ بات سن کر دل گرفتہ ہو گئیں۔ انہیں معلوم تھا کہ ان کے شوہر کے اصول کیا ہیں اور ان کے گھر کی مالی حالت کیسی ہے۔


فاطمہ کا شوہر سے رجوع کرنا

جب شام کو حضرت عمر بن عبدالعزیز گھر واپس آئے، تو فاطمہ نے بچوں کی خواہش کا ذکر کیا۔ ان کے الفاظ دل کو چھو لینے والے تھے:
“امیر المومنین! عید قریب ہے، اور بچے نئے کپڑے مانگ رہے ہیں۔ کیا آپ بیت المال سے کچھ رقم لے سکتے ہیں تاکہ ان کی یہ معصوم خواہش پوری ہو جائے؟”


خلیفہ کا جواب: ایمان اور اصولوں کی بلندی

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے نہایت سکون اور سنجیدگی سے جواب دیا:
“فاطمہ! کیا تم یہ ضمانت دے سکتی ہو کہ میں اپنی آئندہ تنخواہ تک زندہ رہوں گا؟ اگر میں زندہ نہ رہا تو یہ رقم امت کے مال میں خیانت کے زمرے میں آئے گی، اور میں قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس کا جواب دینے کے قابل نہیں ہوں گا۔”

یہ جواب فاطمہ کے لیے نیا نہیں تھا، لیکن یہ ان کے دل پر اثر انداز ضرور ہوا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اور انہوں نے خاموشی سے اپنے شوہر کے فیصلے کو قبول کر لیا۔


بچوں کا ردعمل

جب بچوں کو یہ بات بتائی گئی، تو وہ ابتدائی طور پر مایوس ہوئے۔ لیکن جب انہیں اپنے والد کی ایمان داری اور اللہ کے سامنے جواب دہی کی فکر کے بارے میں سمجھایا گیا، تو ان کے دل بھی شکر گزاری اور قربانی کے جذبے سے بھر گئے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب انہیں عید کی اصل روح یعنی قربانی، صبر، اور اللہ کی رضا کا شعور ہوا۔


حضرت عمر بن عبدالعزیز کی حکمرانی اور ذاتی زندگی کا تضاد

یہ واقعہ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کا کردار ان کی حکمرانی سے کہیں بلند تھا۔ وہ تین براعظموں کے حکمران تھے، لیکن ان کی ذاتی زندگی میں سادگی اور قناعت کی وہ مثال نظر آتی ہے جو عام لوگوں کے لیے بھی ناقابل تصور تھی۔

  • حکمران لیکن بیت المال سے اجتناب:
    وہ بیت المال کو امت کی امانت سمجھتے تھے اور کبھی اسے اپنی ذاتی ضروریات کے لیے استعمال نہیں کرتے تھے۔
  • عید کی خوشی کی اصل روح:
    ان کا یہ عمل ہمیں یاد دلاتا ہے کہ عید کی خوشی کا تعلق ظاہری آرائش سے نہیں بلکہ دل کے سکون، قربانی، اور اللہ کی رضا سے ہے۔

اس واقعے کے اسباق

  1. ایمان داری کی اعلیٰ مثال:
    حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کا یہ عمل ہر مسلمان کو یہ سبق دیتا ہے کہ کسی بھی منصب یا طاقت کے باوجود اللہ کے احکامات کو ترجیح دینا چاہیے۔
  2. سادگی اور قناعت کی اہمیت:
    دنیاوی خواہشات کو ترک کر کے سادہ زندگی گزارنا انسان کو حقیقی خوشی اور سکون فراہم کرتا ہے۔
  3. والدین کی تربیت کا اثر:
    والدین کا طرز عمل بچوں پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ اگر والدین خود قربانی اور صبر کی مثال قائم کریں تو بچے بھی ان کے نقش قدم پر چلیں گے۔
  4. عید کی خوشی کی اصل روح:
    عید کا مطلب صرف ظاہری خوشی نہیں بلکہ اللہ کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے حقیقی سکون حاصل کرنا ہے۔

اختتامیہ

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کا یہ واقعہ نہ صرف اسلامی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے بلکہ موجودہ دور کے حکمرانوں، والدین، اور عام مسلمانوں کے لیے ایک سبق ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حقیقی خوشی دنیاوی آرائش میں نہیں بلکہ اللہ کی رضا میں ہے۔ اگر ہم اس اصول کو اپنی زندگی میں اپنائیں تو ہماری زندگیاں بھی امن، سکون، اور خوشیوں سے بھر سکتی ہیں۔

Leave a Comment