عید کی خوشیوں میں قربانی کا جذبہ: فاطمہ بنت عبد الملک اور عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ
اسلام کی تاریخ ایثار، قربانی، اور حق و انصاف کی بے مثال کہانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک ایمان افروز واقعہ خلیفہ وقت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اور ان کی اہلیہ فاطمہ بنت عبد الملک کا ہے۔ یہ واقعہ ہمیں سادگی، قربانی، اور حقیقی اسلامی طرز زندگی کی گہرائیوں سے روشناس کراتا ہے۔
پس منظر
عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ وہ عظیم خلیفہ تھے جنہیں اسلام کا پانچواں خلیفہ راشد کہا جاتا ہے۔ ان کے دور خلافت میں عدل و انصاف کا ایسا عالم تھا کہ تین براعظموں میں زکوٰۃ لینے والا کوئی نہ رہا۔ فاطمہ بنت عبد الملک، جو سات مختلف شاہی نسبتوں سے شہزادی تھیں، خلیفہ وقت کی اہلیہ ہونے کے باوجود سادگی اور قناعت کا مظہر تھیں۔
عید کا موقع اور بچوں کی خواہش
عید قریب تھی اور بچوں کے چہرے خوشیوں سے جگمگا رہے تھے۔ مگر وہ خوشی اس وقت ماند پڑ گئی جب انہوں نے اپنی ماں، فاطمہ، سے کہا:
“ماں! ہمیں ابا سے کہہ کر عید کے نئے کپڑے دلوا دیں۔”
فاطمہ کو بچوں کی یہ معصوم خواہش سن کر بے بسی کا احساس ہوا۔ وہ جانتی تھیں کہ عید کی خوشیوں میں نئے کپڑے بچوں کے لیے کتنے اہم ہیں، مگر وہ اس بات سے بھی آگاہ تھیں کہ ان کے شوہر کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس سے یہ خواہش پوری ہو سکے۔
عمر بن عبدالعزیز کا جواب
شام کو جب خلیفہ گھر تشریف لائے تو فاطمہ نے ان سے بچوں کی خواہش کا ذکر کیا۔ ان کی بات سن کر عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:
“فاطمہ! میرے پاس تو کوئی رقم نہیں جس سے بچوں کے لیے عید کے کپڑے خرید سکوں۔”
یہ جواب سن کر فاطمہ حیران نہ ہوئیں کیونکہ وہ اپنے شوہر کے اصولی اور زہد و تقویٰ پر مبنی طرز زندگی سے بخوبی واقف تھیں۔
فاطمہ کی ترکیب
فاطمہ نے کہا:
“میرے پاس ایک ترکیب ہے۔ خزانے سے کچھ رقم بطور قرض لے لیں اور تنخواہ آنے پر واپس کر دیں۔ اس طرح بچوں کی خواہش بھی پوری ہو جائے گی اور آپ کے اصولوں پر بھی حرف نہیں آئے گا۔”
عمر بن عبدالعزیز کا تاریخی جواب
عمر بن عبدالعزیز نے نہایت سکون سے جواب دیا:
“فاطمہ! کیا تم ضمانت دے سکتی ہو کہ میں اپنی آئندہ تنخواہ تک زندہ رہوں گا؟ اگر نہیں، تو یہ قرض ہمارے لیے درست نہیں ہے۔ یہ امت کا مال ہے اور میں اس میں خیانت کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔”
یہ الفاظ سن کر فاطمہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ وہ ایک ایسے شخص کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں جو واقعی اللہ کے دین کو اپنی ذات، اپنی اولاد، اور اپنے جذبات پر مقدم رکھتا ہے۔
بچوں کا ردعمل
یہ بات بچوں کو بھی بتائی گئی۔ وہ ابتدائی طور پر مایوس ہوئے، لیکن جب انہیں اپنے والد کی عظمت اور ان کے ایمان کی گہرائی کا احساس ہوا، تو ان کے دل والدین کے لیے احترام سے بھر گئے۔ یہ تربیت کا ایک نادر نمونہ تھا، جس میں بچوں کو عید کی خوشی سے زیادہ تقویٰ، صبر، اور قربانی کا سبق ملا۔
اس واقعے کے اسباق
- عدل و امانت کی اعلیٰ مثال:
عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے خلافت کے مال کو اپنی ذاتی ضرورت کے لیے استعمال نہ کر کے حکمرانوں کے لیے ایک لازوال مثال قائم کی۔ - ایمان اور قناعت کی اہمیت:
فاطمہ اور ان کے بچوں نے یہ دکھایا کہ ایک مسلمان کے لیے دنیاوی خواہشات پر قابو پانا اور اللہ کی رضا کو ترجیح دینا سب سے بڑا امتحان ہے۔ - والدین کی تربیت کا اثر:
یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ والدین کا ایمان اور طرز زندگی بچوں کی شخصیت پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔ - عید کی حقیقی خوشی:
عید صرف نئے کپڑوں اور ظاہری خوشیوں کا نام نہیں ہے۔ یہ قربانی، صبر، اور اللہ کی رضا کی عکاسی کرتی ہے۔
اختتامیہ
عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اور فاطمہ بنت عبد الملک کا یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حقیقی خوشی اللہ کے احکامات پر عمل کرنے اور اپنی خواہشات کو اس کی مرضی کے تابع کرنے میں ہے۔ عید کی خوشی وہی حقیقی خوشی ہے جس میں انسان اللہ کی رضا کو ترجیح دیتا ہے اور اپنے عمل سے دوسروں کے لیے مشعل راہ بنتا ہے۔