حضرت نوح علیہ السلام کی کہانی
حضرت نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبیوں میں سے ایک ہیں، جنہیں اللہ نے اپنی قوم کی ہدایت کے لیے بھیجا۔ آپ کا ذکر قرآن مجید میں کئی مقامات پر آیا ہے اور آپ کی کہانی ایمان، صبر، اور عزم کا ایک بہترین نمونہ ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کی بعثت
حضرت نوح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس وقت نبی بنا کر بھیجا جب آپ کی قوم گمراہی، شرک، اور برائیوں میں مبتلا ہو چکی تھی۔ لوگ بت پرستی میں مشغول تھے اور اللہ کے بجائے اپنی خود ساختہ معبودوں کی عبادت کرتے تھے۔ ان کے دل سخت ہو چکے تھے اور حق بات سننے سے انکار کرتے تھے۔
حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ کی وحدانیت کی طرف بلایا۔ آپ نے انہیں سمجھایا کہ صرف اللہ ہی لائق عبادت ہے اور وہی ان کا خالق و مالک ہے۔ آپ نے لوگوں کو خبردار کیا کہ اگر وہ اپنی گمراہی سے باز نہ آئے تو اللہ کا عذاب ان پر نازل ہوگا۔
ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ
حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال تک دین کی دعوت دی۔ آپ نے دن رات محنت کی، کبھی علانیہ اور کبھی پوشیدہ انداز میں تبلیغ کی۔ آپ نے اپنی قوم کو بار بار سمجھایا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اور شرک سے باز آئیں، لیکن ان کی قوم نے آپ کی باتوں کا مذاق اڑایا اور آپ کی مخالفت کی۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا، تو انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔” (سورۃ الاعراف: 59)
قوم کا انکار اور ضد
حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے آپ کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور آپ کو جھوٹا کہا۔ وہ آپ کا مذاق اڑاتے تھے اور کہتے تھے کہ آپ کو کسی نے جادو کر دیا ہے۔ قوم کے سردار لوگوں کو نوح علیہ السلام سے دور رہنے کا مشورہ دیتے اور انہیں ان کی بات نہ ماننے کی تلقین کرتے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کے ذریعے قوم کو بارہا خبردار کیا، لیکن وہ اپنی ضد پر قائم رہے۔ انہوں نے کہا:
“اے نوح! اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے۔” (سورۃ الشعراء: 116)
کشتی کی تیاری کا حکم
جب حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے ہدایت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اپنی برائیوں پر قائم رہی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ ایک بڑی کشتی تیار کریں۔ اللہ نے آپ کو اس کشتی کے بنانے کا طریقہ سکھایا اور فرمایا کہ ایک عظیم طوفان آنے والا ہے جو کافروں کو تباہ کر دے گا۔
حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے کشتی بنانا شروع کی۔ جب آپ کشتی بنا رہے تھے تو قوم کے لوگ آپ کا مذاق اڑاتے اور کہتے:
“یہ کیسا نبی ہے جو خشکی پر کشتی بنا رہا ہے!”
طوفان کا آنا
جب کشتی تیار ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنے ایمان لانے والے ساتھیوں اور ہر قسم کے جانوروں کا ایک جوڑا کشتی میں سوار کر لیں۔ حضرت نوح علیہ السلام نے تمام مومنین اور جانوروں کو کشتی میں بٹھایا۔
پھر اللہ کا وعدہ پورا ہوا اور زمین اور آسمان سے پانی نکلنا شروع ہو گیا۔ ایک عظیم طوفان آیا جس نے سب کچھ ڈھانپ لیا۔ وہ لوگ جو حضرت نوح علیہ السلام کی باتوں کا مذاق اڑاتے تھے، پانی میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔
بیٹے کی نافرمانی
حضرت نوح علیہ السلام کا ایک بیٹا بھی کافروں میں شامل تھا۔ آپ نے اپنے بیٹے کو کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دی اور کہا کہ وہ اللہ سے توبہ کرے، لیکن اس نے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ کسی پہاڑ پر چڑھ کر اپنی جان بچا لے گا۔
قرآن میں ذکر ہے:
“نوح نے اپنے بیٹے کو آواز دی: اے میرے بیٹے! ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہو جا اور کافروں کے ساتھ نہ ہو۔” لیکن اس نے کہا: میں کسی پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا جو مجھے پانی سے بچا لے گا۔” (سورۃ ہود: 42-43)
آخرکار، حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا بھی طوفان میں ڈوب کر ہلاک ہو گیا۔
طوفان کے بعد کی زندگی
طوفان کے بعد زمین سے پانی واپس چلا گیا اور کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہر گئی۔ حضرت نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور ایک نئی زندگی کا آغاز کیا۔ آپ نے اپنے ساتھیوں کو اللہ کی عبادت کی تعلیم دی اور ایک صالح معاشرہ قائم کیا۔
حضرت نوح علیہ السلام کا پیغام
حضرت نوح علیہ السلام کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اللہ کی راہ میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ان کی قربانی اور محنت ہر مومن کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنا اور شرک سے بچنا ہی کامیابی کی کنجی ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“سلام ہو نوح پر تمام جہانوں میں!” (سورۃ الصافات: 79)
یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہدایت کی دعوت کے راستے میں مشکلات آئیں گی، لیکن صبر اور استقامت کے ساتھ کام کرتے رہنا چاہیے۔ آخرکار، اللہ کے نیک بندے ہی کامیاب ہوں گے۔