Hazrat Loot Alaihis Salam ka Waqia – Hazrat Loot story in Urdu Pdf – Qaum e Loot location

نبی لوط (علیہ السلام) کی قوم (قومِ لوط) کو دردناک عذاب۔ وہ جگہ جسے آج “Dead Sea” کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔ (تاریخِ “Dead Sea” قرآن مجید کی روشنی میں)

عزیز دوستو! اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور جانوروں کو جوڑے میں پیدا کیا۔ جیسے مرد اور عورت، انسانوں میں مرد اور عورت کو بنایا تاکہ وہ دونوں ایک دوسرے کو جائز طریقے سے خوشی دے سکیں۔

حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے کے نبی تھے، آپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔

آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی قوم کی طرف بھیجا جو فلسطین (بیت المقدس) یا اردن کے آس پاس آباد تھی جسے سدوم کہا جاتا تھا۔ یہ سرزمین سرسبز (سبز، ہریالی) اور شاداب تھی، اور یہاں پر ہر طرح کا اناج (گلہ) اور پھلوں (فروٹس) کی کسرت تھی۔

قومِ لوط کا گناہ
اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو ایک قوم کی طرف نبی بنا کر بھیجا جو ان کے لیے ہدایت کا ذریعہ تھے، اسی وجہ سے اس قوم کو قومِ لوط کہا جاتا ہے۔

اس قوم میں ایک ایسی برائی پائی جاتی تھی جو ان سے پہلے دنیا کی کسی بھی قوم میں نہیں دیکھی گئی۔ اس قوم کے مرد اپنی نفسانی (جسمانی) خواہش کو پورا کرنے کے لیے مردوں کے پاس جاتے تھے (ہم جنس پرستی)۔

یہ بے حیائی اور برائی اس قدر عام ہو گئی تھی کہ وہ لوگ اس برے عمل کو برا نہیں سمجھتے تھے بلکہ اس پر فخر کیا کرتے تھے۔

روایات میں آتا ہے کہ اس بے حیائی کے کام کی ابتدا شیطان نے کی۔ وہ ایک خوبصورت نوجوان کے روپ میں آیا اور وہاں کے مردوں کو اس برے عمل کی طرف بہکایا۔ یوں قومِ لوط میں یہ برائی پیدا ہو گئی اور وہ لوگ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرنے لگے۔

روئے زمین پر یہ برا عمل قومِ لوط سے شروع ہوا تھا، اسی لیے آج بھی اس برے کام کو “لواطت” (ہم جنس پرستی) کے نام سے جانا جاتا ہے۔

قوم کو حق کی دعوت
حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کی اصلاح کے لیے بہت کوشش کی۔ کئی برس ان کے درمیان رہ کر دین کی دعوت دیتے رہے، انہیں نصیحت کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے رہے، لیکن ان کی قوم پر کوئی اثر نہ ہوا۔

حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا:
“اے میری قوم! تم لوگ ایسا برا اور بے حیائی کا کام کر رہے ہو جو آج تک دنیا میں کسی نے نہیں کیا۔ یہ بہت گناہ کا کام ہے۔ تم اپنی عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس جاتے ہو۔ اگر تم اپنے اس برے عمل سے باز نہ آئے تو مجھے ڈر ہے کہ ایک دن تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آ گھیرے گا۔ میں تم سے اپنے دعوتِ حق دینے کا کوئی اجر نہیں مانگتا، میرا اجر تو میرے رب کے پاس ہے، جو تمام جہانوں کا مالک ہے۔”

اس پر ان کی قوم کے دولت مند بگڑیل اور امیر سرداروں نے کہا:
“ہمیں نصیحت مت کرو، بڑے پاک صاف بنتے ہو۔ اگر تم نے نصیحت دینا بند نہ کی تو ہم تمہیں شہر سے باہر نکال دیں گے۔”

حضرت لوط علیہ السلام کی نصیحتوں کا جب ان کی قوم پر کوئی اثر نہ ہوا، سوائے چند لوگوں کے جو ایمان لے آئے، تو حضرت لوط علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی:
“اے میرے رب! میں نے اپنی قوم میں دن رات تبلیغ کی اور انہیں تیرے عذاب سے ڈرایا، لیکن وہ اپنے کفر میں اور آگے بڑھ گئے۔ اے میرے رب! اب یہ ایمان نہیں لائیں گے، اب ان کا فیصلہ تو ہی کر۔”

قوم پر عذاب کے لیے اللہ نے فرشتے بھیجے
اللہ تعالیٰ نے قومِ لوط کو عذاب دینے کے لیے دو فرشتے بھیجے۔ یہ دونوں فرشتے سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس پہنچے اور پھر شام ہونے سے پہلے حضرت لوط علیہ السلام کے پاس دو خوبصورت کم عمر نوجوانوں کی شکل میں آئے۔ وہ ان کے یہاں مہمان بن کر پہنچے۔

حضرت لوط علیہ السلام اپنی قوم کی خباثت اور بداعمالیوں سے واقف تھے۔ جب انہوں نے اپنے ان خوبصورت مہمانوں کو دیکھا تو دل ہی دل میں فکر مند ہو گئے اور کہنے لگے:
“آج کا دن بڑی مصیبت کا دن ہے۔”

انہیں اپنی قوم کے بدکار لوگوں کے بارے میں فکر لاحق ہوئی کہ کہیں وہ ان کے مہمانوں کے ساتھ برا عمل نہ کریں۔ اس لیے وہ جلدی سے اپنے مہمانوں کو اپنے گھر کے اندر لے گئے۔

لیکن ان کی بیوی دوڑتی ہوئی گئی اور قوم کے بگڑیل سرداروں اور بدکاروں کو حضرت لوط علیہ السلام کے گھر آئے ہوئے مہمانوں کی خبر دے دی۔ قوم کے بدکار لوگ حضرت لوط علیہ السلام کے گھر آ پہنچے اور کہا:
“ان لڑکوں کو ہمارے حوالے کر دو۔”

حضرت لوط علیہ السلام نے کہا:
“یہ میرے مہمان ہیں، میں انہیں ہرگز تمہارے حوالے نہیں کروں گا۔ تمہیں اللہ تعالیٰ کا واسطہ ہے، میرے مہمانوں کے سامنے مجھے ذلیل اور رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں سے کوئی بھی بھلا آدمی نہیں ہے؟”
اور قوم کی عورتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
“یہ میری بیٹیاں (یا قوم کی بیٹیاں) ہیں، تم ان سے نکاح کر لو اور اپنی نفسانی خواہشات کو ان سے پورا کر لو۔”

لیکن قوم کے لوگ نہ مانے اور کہا:
“تم اچھی طرح جانتے ہو کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔ ہم تمہیں کل صبح تک کی مہلت دیتے ہیں، اس کے بعد تم ہمیں روک نہیں پاؤ گے۔” یہ کہہ کر وہ لوگ چلے گئے۔

اپنی بے بسی پر حضرت لوط علیہ السلام کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ چاہ کر بھی اپنے مہمانوں کی حفاظت نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ان کی قوم کے بدکار لوگ تعداد میں زیادہ اور طاقتور تھے۔

حضرت لوط علیہ السلام نے کہا:
“کاش، مجھ میں تم سے مقابلے کی طاقت ہوتی یا میں کسی زبردست کا سہارا لے سکتا۔”

تب فرشتوں نے کہا:
“ہم عذاب کے فرشتے ہیں۔ اے لوط! گھبرانے کی ضرورت نہیں، وہ لوگ نہ ہم تک پہنچ سکتے ہیں اور نہ ہی اب وہ آپ تک پہنچ پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ کی قوم پر عذاب نازل کرنے کے لیے بھیجا ہے۔ آپ اور جو لوگ آپ کے ساتھ ایمان لائے ہیں، صبح صادق سے پہلے اس بستی کو چھوڑ کر دور چلے جائیں اور خبردار، کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔ اب ان گناہ گاروں میں سے کوئی بھی نہیں بچے گا۔”

حضرت لوط علیہ السلام اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے تھے، صبح ہونے سے پہلے بستی چھوڑ کر دور جا چکے تھے۔ صرف حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی پیچھے رہ گئی کیونکہ وہ بھی کافر تھی۔

پھر فرشتوں نے زمین کو جڑ سے اکھاڑ کر پلٹ دیا اور اسے کئی کلومیٹر (تقریباً 40 کلومیٹر) تک گہرائی میں دھنسا دیا۔ اس کے بعد ان پر پتھروں اور تیزاب کی بارش کی گئی۔ اس طرح ان گناہ گاروں کا نام و نشان مٹا دیا گیا اور ان میں سے کوئی بھی نہ بچ سکا۔

عذاب کی جگہ آج بھی Dead Sea کے نام سے موجود ہے
جہاں عذاب نازل ہوا تھا وہ جگہ آج بھی موجود ہے اور اسے “Dead Sea” یا “مرا ہوا سمندر”، “مرُت ساگر”، “بحرِ مردار” یا “بحرِ لوط” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آج بھی وہاں عذاب کی وجہ سے نہ تو کوئی مچھلی پیدا ہوتی ہے اور نہ کوئی کیڑا مکوڑا۔ اس سمندر کا پانی اتنا زیادہ نمکین ہے کہ اگر اسے منہ سے لگا لو تو الٹی ہو جائے۔

اللہ تعالیٰ گناہگاروں اور نافرمانوں کو اس طرح دنیا میں بھی عذاب دیتا ہے اور مرنے کے بعد بھی۔

لیکن افسوس کی بات ہے کہ انسان ان باتوں سے کوئی سبق نہیں لیتا۔ آج کے کچھ جدید خیالات رکھنے والے لوگ، یہود و نصاریٰ اس برے عمل کو برا نہیں سمجھتے اور ایسے کام کرنے والوں کو قانونی درجہ دے رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے برے اعمال اور خیالات سے بچائے۔ آمین۔

مزید اسلامی واقعات کے لیے ہماری ویب سائٹ Haris Stories کا وزٹ کریں۔

Leave a Comment