حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا عجیب فیصلہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حکمت و عدل کے بے شمار واقعات اسلامی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان کے فیصلے انصاف، حکمت، اور انسانی فطرت کی گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ دو افراد کے درمیان پیش آیا جس میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنی بصیرت سے ایک منفرد فیصلہ سنایا۔
واقعے کی تفصیل
دو افراد سفر پر تھے۔ ایک کے پاس پانچ روٹیاں تھیں جبکہ دوسرے کے پاس تین روٹیاں۔ دونوں نے کھانے کا ارادہ کیا اور بیٹھ کر اپنی روٹیاں نکالیں۔ اسی دوران ایک مسافر آیا اور سلام کیا۔ دونوں نے اسے بھی اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دی۔ چنانچہ تینوں نے مل کر وہ آٹھ روٹیاں کھائیں۔
کھانے کے بعد مسافر نے ان کا شکر ادا کیا اور اپنی طرف سے آٹھ درہم نکال کر ان کے سامنے رکھ دیے، تاکہ وہ ان روٹیوں کی قیمت تقسیم کر لیں۔ مسافر کے جانے کے بعد دونوں افراد میں یہ بحث شروع ہو گئی کہ درہموں کی تقسیم کس طرح ہو۔
تنازع اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس معاملہ
پانچ روٹیاں لانے والا شخص کہنے لگا کہ اس کے پاس زیادہ روٹیاں تھیں، اس لیے زیادہ درہم اس کے حصے میں آنے چاہییں۔ جبکہ تین روٹیاں لانے والے کا کہنا تھا کہ مسافر نے سب کی روٹیاں کھائیں، اس لیے درہم برابر تقسیم ہونے چاہییں۔ اس جھگڑے کو حل کرنے کے لیے دونوں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس پہنچے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فیصلہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے معاملہ سننے کے بعد فرمایا:
“یہ تم دونوں کا آپس کا معاملہ ہے، اگر صلح کرنی ہے تو چار درہم ایک کو اور چار درہم دوسرے کو دے دو۔ لیکن اگر میرا فیصلہ چاہتے ہو تو وہ ایسا ہوگا جو مکمل انصاف پر مبنی ہو۔”
دونوں نے کہا کہ وہ آپ ہی کا فیصلہ مانیں گے۔ تب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا:
“پانچ روٹیاں لانے والے کو سات درہم ملیں گے اور تین روٹیاں لانے والے کو صرف ایک درہم۔”
فیصلے کی حکمت
یہ فیصلہ سن کر تین روٹیاں لانے والے شخص نے اعتراض کیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے وضاحت فرمائی:
“آٹھ روٹیاں کل 24 حصوں میں تقسیم ہوئیں (کیونکہ ایک روٹی کے تین ٹکڑے کیے گئے)۔ ہر شخص نے آٹھ آٹھ حصے کھائے۔ پانچ روٹیاں لانے والے کے پاس 15 حصے تھے، جن میں سے اس نے آٹھ خود کھائے اور سات حصے مسافر کو دیے۔ جبکہ تین روٹیاں لانے والے کے پاس 9 حصے تھے، جن میں سے اس نے آٹھ خود کھائے اور صرف ایک حصہ مسافر کو دیا۔ اس لیے سات درہم پہلے شخص کو اور ایک درہم دوسرے شخص کو ملنا چاہیے۔”
سبق
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ فیصلہ ہمیں انصاف کی گہرائی اور منطق کے استعمال کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ واقعہ اس بات کا عملی مظاہرہ ہے کہ حق اور انصاف ہمیشہ اصولوں اور حقائق کی بنیاد پر ہونا چاہیے، نہ کہ جذبات یا ظاہری تقسیم پر۔
یہ فیصلہ اسلامی تاریخ میں عدل کی ایک بے مثال مثال کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور آج بھی ہمیں انصاف کے اصولوں پر عمل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔