ایک مرتبہ رات کا ایک عالم حضرت علی کے پاس آیا اور اس نے اپنے چند سوالات پیش کیے۔ اس نے کہا، “یا علی، آپ کو اللہ نے حکمت و علم سے نوازا ہے، میں کچھ سوالات لے کر آیا ہوں، براہِ کرم ان کے فوری جواب دیں۔” حضرت علی نے فرمایا، “پوچھو جو پوچھنا چاہتے ہو۔”
عالم نے کہا، “ایک بادشاہ رات کے وقت بھیس بدل کر شہر کی گشت کیا کرتا تھا تاکہ وہ لوگوں کا حال جان سکے۔ ایک رات اس نے مسجد میں دو درویشوں کو دیکھا جو مسجد کے ایک کونے میں بیٹھے کانپ رہے تھے۔ ان کے حال سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ سردی اور بھوک سے پریشان ہیں۔ بادشاہ ان کے قریب گیا اور ان سے ان کے حال کے بارے میں پوچھا۔ لیکن وہ درویش ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے اور بادشاہ کو جواب دینے کے بجائے کچھ ذکر کرنے لگے۔ بادشاہ نے حیران ہو کر ان سے پوچھا، ‘تم مسکرا کیوں رہے ہو؟’ درویشوں میں سے ایک نے کہا، ‘بادشاہ سلامت، یہ دنیا ایک عارضی سایہ ہے، اور ہم وہ ہیں جو اس عارضی دنیا کے فریب سے آزاد ہوچکے ہیں۔’
بادشاہ نے ان کی بات سن کر حیرت سے پوچھا، ‘اچھا تو مجھے یہ بتاؤ کہ وہ کون سا مرد ہے جس کی مثال کائنات میں کوئی دوسرا نہیں؟’ درویش مسکرایا اور بولا، ‘ایسا مرد وہی ہے جو انصاف کا علمبردار ہو، جو حق کے لیے لڑے، جو مظلوموں کا سہارا ہو، اور جو اپنی ذات کو اللہ کی راہ میں وقف کرے۔‘
عالم نے حضرت علی سے پوچھا، ‘یا علی، آپ بتائیں کہ وہ مرد کون ہے؟’ حضرت علی مسکرائے اور فرمایا، ‘وہ مرد وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے راستے پر چلتا ہے، جو حق و انصاف کے قیام کے لیے اپنی جان کی بازی لگاتا ہے۔ وہ مرد اللہ کا ولی ہے۔ اور اگر تم جاننا چاہتے ہو تو ایسا مرد ہر زمانے میں حق پر قائم رہنے والوں میں سے ہوتا ہے۔’
عالم نے حضرت علی کا یہ جواب سن کر کہا، ‘یا علی، آپ کی باتوں سے میرا دل روشن ہو گیا۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔’ اور وہ حضرت علی کی حکمت و دانائی کی تعریف کرتے ہوئے واپس چلا گیا۔