[Cryful] Hazrat Umar [R] Ka Misali Door-e-Hukomat – An Ideal Government of Omar [R] True urdu story-hazrat umar (r.a) ka waqia

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مثالی دورِ حکومت اور سادہ زندگی کی داستان

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا شمار اسلام کی تاریخ کے ان عظیم حکمرانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی انصاف پر مبنی حکومت اور سادگی سے بھرپور زندگی کے ذریعے دنیا میں حکمرانی کا ایک بے مثال معیار قائم کیا۔ ان کے دورِ خلافت میں نہ صرف اسلامی ریاست ایک عظیم سلطنت میں تبدیل ہوئی بلکہ عدل و انصاف، مساوات اور عوام کی خدمت کا وہ نظام متعارف ہوا جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔

خلافت کی ذمہ داری اور سادگی کا عزم

جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا، تو آپ نے اللہ کے سامنے عاجزی سے دعا کی:
“اے اللہ! یہ ذمہ داری میرے لیے ایک بوجھ ہے، مجھے اس میں کامیابی عطا فرما اور مجھے امت کے حق میں انصاف کرنے کی توفیق دے۔”

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالتے ہی اعلان کیا:
“میری نیند بھی تمہارے لیے ہے اور میری راتیں بھی تمہارے لیے ہیں۔ اگر میں انصاف نہ کر سکا تو قیامت کے دن میرا مواخذہ ہوگا۔”

حکومت کا نظام اور عدل کی مثالیں

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اسلامی سلطنت کی حدود جزیرہ عرب سے نکل کر شام، عراق، مصر، ایران اور دیگر علاقوں تک پھیل گئیں۔ آپ نے ان علاقوں میں عدل و انصاف پر مبنی قوانین نافذ کیے اور عوام کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا۔

ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ کی گلیوں میں رات کے وقت گشت کر رہے تھے۔ آپ نے ایک جھونپڑی سے بچوں کے رونے کی آواز سنی۔ اندر جا کر دیکھا کہ ایک عورت چولہے پر خالی برتن رکھے بیٹھی ہے اور بچے بھوک سے رو رہے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حیرانی سے پوچھا:
“بہن! یہ کیا ماجرا ہے؟”
عورت نے جواب دیا:
“خلیفہ عمر نے ہمارے لیے کوئی بندوبست نہیں کیا، ہم بھوکے ہیں اور میں بچوں کو بہلانے کے لیے خالی برتن میں پانی گرم کر رہی ہوں۔”

یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوراً بیت المال گئے، ایک بوری میں آٹا، گھی اور کھانے کا سامان بھرا اور خود اپنی پیٹھ پر اٹھا کر عورت کے گھر لے آئے۔ ساتھیوں نے کہا:
“اے امیر المومنین! ہم یہ سامان اٹھا کر لے چلتے ہیں۔”
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:
“قیامت کے دن تم میرا بوجھ نہیں اٹھاؤ گے، یہ میرا فرض ہے۔”

آپ نے خود اس عورت کے لیے کھانا بنایا اور اس کے بچوں کو کھلایا۔ جب عورت نے پہچانا کہ یہ خلیفہ ہیں تو وہ حیران ہو گئی اور دعائیں دینے لگی۔

سادہ زندگی کا عملی نمونہ

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی زندگی دنیاوی شان و شوکت سے پاک تھی۔ آپ کے کپڑوں پر کئی جگہ پیوند لگے ہوتے تھے، آپ کا کھانا عام لوگوں جیسا سادہ ہوتا، اور آپ اکثر زمین پر بیٹھ کر کھاتے۔ ایک مرتبہ ایک غیر ملکی سفیر مدینہ آیا اور خلیفہ سے ملنے کا خواہشمند ہوا۔ اسے بتایا گیا کہ خلیفہ مسجد میں ہیں۔ وہ سفیر حیران ہوا کہ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کا حکمران مسجد میں ایک چٹائی پر سو رہا ہے۔

جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ جاگے، تو وہ سفیر کہنے لگا:
“اے عمر! تم نے انصاف کے ذریعے امن قائم کیا اور امن کے ذریعے سکون پایا، اسی لیے تم زمین پر سکون سے سو سکتے ہو۔”

عوام کی خدمت اور جوابدہی کا نظام

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے مختلف اصلاحات کیں۔ آپ نے بیت المال کا نظام مضبوط کیا، نہریں کھدوائیں، مسافر خانوں کا قیام کیا، اور یتیموں، بیواؤں اور ضرورت مندوں کے لیے وظیفے مقرر کیے۔ آپ نے گورنروں کو سختی سے ہدایت دی کہ وہ عوام کی خدمت کریں اور کوئی ظلم یا زیادتی نہ کریں۔

آپ نے خود کو عوام کے سامنے جوابدہ سمجھا۔ ایک مرتبہ خطبے کے دوران ایک شخص نے کھڑے ہو کر سوال کیا:
“اے عمر! آپ نے جو کپڑا پہنا ہوا ہے، وہ بیت المال سے ملا ہے۔ ہم سب کو ایک چادر ملی تھی، تو آپ کے پاس دو چادریں کہاں سے آئیں؟”
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فوراً اپنے بیٹے عبداللہ کو بلایا اور کہا:
“لوگوں کو بتاؤ!”
عبداللہ نے جواب دیا:
“میں نے اپنی چادر والد کو دے دی تھی تاکہ وہ اپنی لمبائی کے مطابق اسے سی لیں۔”
یہ سن کر وہ شخص مطمئن ہوا اور بولا:
“اب ہم آپ کی بات مانیں گے، کیونکہ آپ واقعی انصاف کے علمبردار ہیں۔”

انتقال اور دائمی میراث

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اسلامی ریاست ایک مثالی فلاحی ریاست تھی، جہاں کسی کو بھوکا سونا نہیں پڑتا تھا۔ آپ کا انتقال 23 ہجری میں ہوا جب آپ کو نماز کے دوران ایک مجوسی غلام نے شہید کر دیا۔ اپنی وفات سے پہلے آپ نے وصیت کی کہ خلیفہ منتخب کرنے کا اختیار اہل شوریٰ کو دیا جائے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی ہم سب کے لیے ایک مثال ہے کہ ایک حکمران کو کیسا ہونا چاہیے: انصاف پرور، عوام کا خادم، اور دنیاوی لالچ سے پاک۔ ان کا دورِ خلافت ایک سنہری باب ہے جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔

Leave a Comment