چالاک پرندے والا
ایک گاؤں میں ایک شخص رہتا تھا جسے لوگ “چالاک پرندے والا” کہتے تھے۔ اس کا اصل نام عمران تھا، لیکن اس کی ہوشیاری اور پرندوں سے محبت نے اسے یہ منفرد لقب دلایا۔ عمران گاؤں کے باہر ایک چھوٹے سے مکان میں رہتا تھا، جہاں اس نے پرندوں کے لیے ایک بڑی جگہ بنائی ہوئی تھی۔ وہاں مختلف رنگوں، آوازوں اور نسلوں کے پرندے موجود تھے۔
عمران کا دعویٰ تھا کہ وہ پرندوں کی زبان سمجھ سکتا ہے۔ گاؤں والے اکثر اسے مذاق سمجھتے، لیکن عمران ہمیشہ مسکرا کر کہتا، “وقت آنے دو، تم سب کو پتہ چل جائے گا۔”
پرندے کی چوری
ایک دن گاؤں کے چوہدری کے گھر سے ایک قیمتی زیور کا ڈبہ غائب ہوگیا۔ گاؤں بھر میں ہلچل مچ گئی۔ چوہدری نے اعلان کیا کہ جو بھی زیور تلاش کرے گا، اسے بڑا انعام دیا جائے گا۔ عمران نے موقع دیکھا اور چوہدری کے پاس جا کر کہا، “مجھے اجازت دیں، میں اپنے پرندوں کی مدد سے یہ چوری حل کر سکتا ہوں۔”
چوہدری نے ہنس کر کہا، “تمہارے پرندے کیا کریں گے؟ لیکن ٹھیک ہے، کوشش کر لو۔”
ہوشیار توتے کی کارگزاری
عمران نے اپنے سب سے ہوشیار توتے کو حکم دیا کہ گاؤں کے ہر گھر پر نظر رکھے اور کوئی غیر معمولی چیز دیکھے تو واپس آ کر بتائے۔ توتا گاؤں میں اڑنے لگا، اور شام تک وہ عمران کے پاس واپس آ گیا۔ توتے نے مخصوص آواز میں کچھ کہا، اور عمران کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
چور کا پردہ فاش
اگلے دن عمران چوہدری کے پاس گیا اور کہا، “چور تمہارے قریبی نوکر میں سے ایک ہے۔” چوہدری کو یقین نہ آیا، لیکن عمران نے کہا، “میرے پرندے نے نوکر کو کچھ چھپاتے ہوئے دیکھا ہے۔”
چوہدری نے نوکر سے سختی سے پوچھ گچھ کی، تو اس نے آخر کار زیور چرانے کا اعتراف کر لیا۔ گاؤں والے حیران تھے کہ عمران اور اس کے پرندوں نے یہ معمہ کیسے حل کیا۔
چالاکی کا راز
عمران نے مسکراتے ہوئے کہا، “میرے پرندے نہ صرف میری ہدایات پر عمل کرتے ہیں، بلکہ ان کی نظر اور یادداشت انسان سے بہتر ہے۔ میں انہیں اشاروں اور مخصوص آوازوں سے سکھاتا ہوں، اور وہ میری بات کو سمجھ کر عمل کرتے ہیں۔”
چوہدری نے عمران کو انعام دیا، اور گاؤں والے اب عمران کو مزید عزت دینے لگے۔ اس دن کے بعد عمران کے پرندے صرف خوبصورتی کے لیے نہیں، بلکہ گاؤں کی حفاظت کے لیے بھی جانے جانے لگے۔
یوں “چالاک پرندے والا” کا نام پورے علاقے میں مشہور ہو گیا، اور وہ اپنی ذہانت اور پرندوں کی مہارت کی بدولت گاؤں کی کہانیوں کا اہم حصہ بن گیا۔