ملکِ عرب میں ڈاکوؤں کا ایک گروہ تھا جنہوں نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر اپنا محفوظ ٹھکانہ بنا لیا تھا۔ یہ مقام نہ صرف بلند و بالا تھا بلکہ ایسے کونے کھدروں سے بھرا ہوا تھا جہاں تک رسائی آسان نہیں تھی۔ ڈاکو دن کے وقت اپنی کمین گاہ میں چھپے رہتے اور جیسے ہی کوئی قافلہ پہاڑ کے دامن سے گزرتا، وہ نیچے اتر کر انہیں لوٹ لیتے۔ ان کی تیزی اور منصوبہ بندی کا یہ عالم تھا کہ قافلے والوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ خلقِ خدا ان کے ہاتھوں شدید پریشان تھی۔
ان کا یہ ٹھکانہ ایسا محفوظ تھا کہ حکومت کی جانب سے کئی بار انہیں پکڑنے کی کوششیں کی گئیں، لیکن ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ پہاڑ کی پیچیدہ گزرگاہیں اور ڈاکوؤں کی چالاکی انہیں گرفت میں آنے سے بچا لیتی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، ان کے پاس بہترین ہتھیار اور آلات تھے جو ان کے ظلم و ستم کو بڑھاتے تھے۔
یہ گروہ نہ صرف قافلوں کو لوٹتا تھا بلکہ علاقے کے آس پاس کے گاؤں اور بستیوں پر بھی دھاوا بول دیتا۔ لوگ ان کے خوف سے پہاڑ کے قریب جانے سے کتراتے تھے۔ بعض لوگ تو یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ان ڈاکوؤں کو کسی جادوئی طاقت کا سہارا ہے، جو انہیں ناقابلِ تسخیر بناتی ہے۔
ایک دن ایک مشہور بہادر اور ذہین سپاہی، جس کا نام عمر بن خالد تھا، اس علاقے میں پہنچا۔ عمر بن خالد نے ڈاکوؤں کے ظلم کے قصے سنے اور ان کو پکڑنے کا عزم کر لیا۔ وہ نہایت ہوشیاری سے ان کی کمین گاہ کا معائنہ کرنے نکلا۔ کئی دنوں تک اس نے پہاڑ کے ارد گرد چکر لگایا اور ان کے طریقۂ کار کو سمجھنے کی کوشش کی۔
عمر بن خالد نے فیصلہ کیا کہ وہ انہیں براہِ راست مقابلے میں شکست نہیں دے سکتا، کیونکہ ان کا ٹھکانہ بہت مضبوط تھا۔ اس نے ایک چالاکی سے بھرپور منصوبہ بنایا۔ اس نے کچھ مقامی لوگوں کی مدد لی اور ایک جعلی قافلہ ترتیب دیا۔ قافلے میں قیمتی اشیاء رکھنے کا ڈرامہ رچایا گیا تاکہ ڈاکوؤں کی توجہ حاصل کی جا سکے۔
جب قافلہ پہاڑ کے قریب پہنچا تو ڈاکوؤں نے حسبِ معمول حملہ کیا۔ لیکن اس بار معاملہ مختلف تھا۔ قافلے کے اندر چھپے سپاہی فوراً حرکت میں آئے اور ڈاکوؤں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا۔ عمر بن خالد اور اس کے ساتھیوں نے پہاڑ کے مختلف راستوں پر پہلے سے گھات لگا رکھی تھی، جس کی وجہ سے فرار کا کوئی راستہ باقی نہ رہا۔
کئی گھنٹوں کی جدوجہد کے بعد ڈاکوؤں کا یہ گروہ بالآخر قابو میں آ گیا۔ ان کے سرغنہ کو گرفتار کر لیا گیا اور انہیں عوام کے سامنے پیش کیا گیا تاکہ ان کے ظلم و ستم کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اس کامیابی نے نہ صرف علاقے میں امن و امان قائم کیا بلکہ عمر بن خالد کی بہادری اور حکمت کو ہمیشہ کے لیے یادگار بنا دیا۔
یہ واقعہ ایک سبق کے طور پر یاد کیا جاتا ہے کہ کوئی بھی مجرم کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو، صحیح حکمتِ عملی اور عزم کے ساتھ اسے شکست دی جا سکتی ہے۔