A businessman accusing a soldier of Sultan Saladin Ayubi of bribery – Sultan Salahuddin Ayyubi

A businessman accusing a soldier of Sultan Saladin Ayubi of bribery
A businessman accusing a soldier of Sultan Saladin Ayubi of bribery

بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم
مصر پر حکومت کرتے جب ایک عشرہ گزر گیا تو ایک دفعہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک وزیر کو حکم دیا کہ جاؤ اور مصر کی جتنی بھی چھوٹی بڑی جیلیں ہیں اس میں جاکر دورہ کرو اور تمام جیلوں کا مجھے حال احوال اور تمام معلومات فراہم کرو اور ان میں دیکھو کہ کس طرح کے مجرم بند ہیں
اور انہوں نے کون کون سے جرم کیے ہیں اور ان مجرموں سے ان کی رائے لو اور پوچھو کہ کیا انہیں جیل میں ایک قیدی کی طرح سہولیات مل رہی ہیں یا نہیں مختصر یہ کہ سلطان صلاح الدین ایوبی زندان میں قید تمام قیدیوں کے جرائم اور ان کے ساتھ کیے گئے سلوک کے بارے میں جاننا چاہتے تھے کہ کون بے گناہ قیدی ہے جو زندان یعنی جیل میں قید ہیں وزیر نے کہا سلطان معظم آپ کا حکم سر آنکھوں پر
پھر سلطان نے وزیر کہا کہ اسے وزیر یہ بتاؤ کہ اس کام کے لیے تمہیں کتنا وقت چاہیے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد وزیر نے کہا سلطان معظم مجھے اس کام کے لیے کم از کم 2 ماہ کا وقت چاہیے سلطان نے کہا ٹھیک ہے تم اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جاؤ سلطان کا وزیر اپنے چند سپاہیوں کے دستے کے ساتھ اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گیا
وزیر مصر کے دارالحکومت میں مختلف جیلوں میں دورہ کر رہا تھا اور قیدیوں کا حال احوال جان رہا تھا وقت گزرتا رہا تقریبا 15 دن کے بعد سلطان کا وزیر ایک ایسی جیل کے اندر گیا
جہاں اس نے ایک دیہاتی کو دیکھا جو ایک جیل کے کونے میں بڑا پریشانی کے عالم میں بیٹھا تھا تمام قیدی سلطان کے وزیر کو دیکھ کر آپ سے مل رہے تھے اور وزیر بھی ان سے حال احوال جان رہا تھا لیکن وہ قیدی دوسروں سے ہٹ کر جیل کے کونے میں پریشان بیٹھا ہوا تھا یہ دیکھ کر سلطان کا وزیر اس قیدی کی طرف بڑھا کے آخر ایسی کیا بات ہے کہ وزیر کے آنے پر اسے نہ ہی گھبراہٹ ہوئی نہ کوئی خوشی نہ کوئی تھی اور یہ دوسرے قیدیوں سے ہٹ کر جیل کے کونے میں اپنی خیالی زندگی میں پریشان کیوں بیٹھا ہوا ہے یہ سن کر وزیر اس قیدی کی طرف بڑھا تو قیدی نے اپنا چہرہ اٹھا کر جب وزیر کو دیکھا تو دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے تمام قیدی بھی ان کو دیکھ کر بڑے حیران ہوئے کہ یہ ایک دوسرے کو اتنے غور سے کیوں دیکھ رہے ہیں تھوڑی دیر کے بعد سلطان کے وزیر نے اس نوجوان سے کہا اے میرے بچپن کے دوست تم یہاں کس جرم میں اگئے ہو یہ سن کر تمام قیدی بڑے حیران ہوئے کہ ایک مجرم کا ایک وزیر دوست نکلا
اس آدمی نے اگر وزیر کو گلے لگا یا وزیر نے حال احوال پوچھا اور پھر وزیر نے اس کو آرام سے بٹھا کر پوچھا بتاؤ تم نے ایسا کون سا جرم کیا کہ تم اج جیل میں بند ہو اس نے کہا کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا تم تو مجھے بچپن سے جانتے ہو کہ میں نے کبھی کسی کی مرغی کا انڈا بھی نہیں چرایا لیکن آج میں سو سونے کے سکوں کی چوری کے جرم میں یہاں جیل میں بند ہوں یہ سن کر وزیر نے کہا وہ کیسے اس نے کہا ایک دن میں بازار میں اپنے مٹی کے برتن بیچ کر واپس آرہا تھا کہ راستے میں مجھے سلطان کا ایک کمانڈر ملا اس نے مجھے کہا کہ تم کہاں سے آرہے ہو میں نے کہا کہ میں بازار میں برتن بیچ کر آرہا ہوں اس نے مجھے کہا کہ تم اپنے بیچے ہوئے برتنوں کے آدھی رقم مجھے دے دوورنہ میں تمہیں چوری کے الزام میں جیل میں بھیج دوں گا میں نے اس سے کہا کہ میں نے بڑی مشکلوں سے برتن بنائے تھے اور ایک ہفتے سے میں ان کونچ رہا ہوں بڑی مشقت محنت سے اس جلتے سورج کے نیچے میں نے ایک ایک سکہ جمع کیا ہے اب جا کر مجھے کچھ سکے میر ارزق اللہ نے عطا کیا ہے تو وہ بھی میں تمہیں دے دوں یہ میں نہیں دوں گا یہ سن کر اس کمانڈر نے مجھے مارا پیٹا اور مجھ سے وہ سو سونے کے سکے بھی چھین لیے اور مجھے قاضی کے سامنے ایک چور بنا کر حاضر کیا اور کہا کہ ایہ ادمی بازار سے سو سونے کے سکے چھین کر بھاگ رہا تھا قاضی صاحب نے بھی میرے خلاف مقدمہ دیا کیونکہ اس نے اپنے تین سپاہی میرے خلاف گواہی دینے کے لیے کھڑے کر دیے تھے
یہ سن کر سلطان کا وزیر بڑا حیران و پریشان ہوا کہ ایسے ہی لگتا ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ کا غضب نہ ہی سلطان کا وہ کمانڈر جانتا ہے اور نہ ہی وہ قاضی پھر وزیر نے اس ادمی کو کہا کہ میرے پاس ایک ترکیب ہے جس سے تم سلطان کے اس کمانڈر اور اس کے ان تین جھوٹے سپاہیوں کو بھی سزا دلوا سکتے ہو اور خود بھی بے گنہ ثابت ہو د سکتے ہو وزیر کی یہ بات سن کر اس کا قیدی دوست بڑا حیران ہوا کہ اخرایسی کون سی ترکیب ہے جس سے میری جان ما چھوٹ سکتی ہے کیونکہ میں یہاں دو سال سے قید ہوں اور بغیر کسی جرم کے یہاں جیل میں سڑ رہا ہوں وزیر نے کہا کہ تم اج سے مسلسل ایک ہفتے کے لیے بھوک ہڑتال شروع کر دو اور اپنا مطالبہ یہ رکھو کہ مجھے سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ کے سامنے پیش کرو ورنہ میں اب کھانا نہیں کھاؤں گا اور یہ کہو کہ اگر مجھے جیل میں کچھ ہو گیا تو اس کے ذمہ دار جیلر ہو گا اور جب تمہیں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے پیش کیا جائے تو جب تم سے سلطان پوچھے کہ تم کس جرم میں جیل میں گئے ہو تو تم کہنا کہ سلطان معظم میں نے بازار سے ایک ہزار سونے کے سکے چرائے تھے اور وہ چوری کرتے ہوئے : مجھے ے آپ کے کمانڈر نے دیکھ لیا تھا جو بازار کی حفاظت پر مامور تھا لیکن اس نے قاضی صاحب کو صرف یہ بتایا کہ میں نے صرف سو سکے چرائے اور اس نے قاضی صاحب کو بھی وہ سو سکے دیے جو کہ قاضی صاحب نے سرکاری خزانے میں جمع کرائے اور باقی ہو سکے کمانڈر نے اپنی جیب میں رکھ لیے وزیر کے دوست کو یہ ترکیب بہت اچھی لگی
اور وہاں سے وزیر نے جاتے ہوئے جیلر کو کہا کہ اگر کوئی بھی قیدی یا مجرم کوئی حرکت کرے تو اس کو پوری سزا دو اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری تم پر مامور ہوتی ہے یہ سلطان کا حکم ہے کہ جیل میں کسی بھی قیدی کو بغیر کسی وجہ کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو اس کے ذمہ دار جیلر تم ہو گے یہ سن کر جیلر بھی سر جھکائے کھڑا ہو گیا وزیر وہاں سے روانہ ہو گیا اور اس کے بعد وزیر کے اس دوست نے وزیر کی بتائی ہوئی ترکیب پر بے پر عمل کرنا شروع کر دیا اور اور اس نے اس دن سے لے لے کر دو دن تک مسلسل بھی بھوک ہڑتال رکھی اور یہی کہا کہ مجھے سلطان کے سامنے حاضر کرو ورنہ میں کھانا نہیں کھاؤں گا اور بھوک سے مر جاؤں گا اور جیسے ہی میری موت ہو گئی یہ بات پورے مصر میں ہوا کی طرح پھیل جائے گی کہ سلطان کی قید میں ایک ادمی بھوک سے مر گیا اور تم جانتے ہو کہ سلطان کے غضب سے تم بیچ نہیں سکتے یہ سن کر جیلر بھی بڑا پریشان ہوا اور وہ سیدھا قاضی صاحب کے پاس گیا تو جب قاضی صاحب نے یہ مسئلہ سنا تو اس نے کہا کہ اسے سلطان کے پاس لے جاؤ اور مجھے یقین ہے کہ سلطان اسے ملنے کے لیے ضرور تیار ہو جائے گا
جیسے ہی وہ جیلر اس قیدی کو سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے حاضر کیا تو اس نے وزیر کی بتائی ہوئی ترکیب پر عمل کیا سلطان نے جب کیا تو اس نے وزیر کی بتائی ہوئی ترکیب پر عمل کیا سلطان نے جب اس سے پوچھا کہ تم کس جرم میں قید ہو اور تم نے مجھ سے ملنے کے لیے بھوک ہڑتال کیوں کی تو اس نے کہا
سلطان معظم آپ کی فوج میں آپ اپ کے کچھ۔ کچھ سپاہی غدار ہیں اور رشوت لیتے ہیں اور مجھے معلوم تھا کہ اگر یہ میں بات کسی قاضی یا جیلر کو کہتا تو وہ بھی اس پر عمل نہ کرتے اور یہ بات آپ تک کبھی نہ پہنچتی اور میں چاہتا ہوں کہ یہ بات میں آپ تک پہنچا سکوں سلطان نے کہا تمہیں کیسے پتہ تم تو ایک مجرم ہو اس نے کہا سلطان معظم میں بھی چوری کے الزام میں جیل میں گیا ہوں اور میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کا ایک کمانڈر جس نے مجھے ایک تاجر سے ایک ہزار سونے کے سکے چراتے ہوئے پکڑا تھا لیکن اس نے 100 سکے صرف قاضی کو دے کر کہا کہ میں نے 1000 سکے چرائے تھے اور باقی 900 کے اپنی جیب میں رکھ لیے یہ سن کر سلطان نے اسی وقت حکم دیا کہ اس کمانڈر کو حاضر کرو چند لمحوں کے بعد جب وہ کمانڈر سلطان کے سامنے حاضر ہو ا سلطان نے پوچھا کہ بتاؤ
کیا یہ نوجوان سچ کہہ رہا ہے تو اس نے کہا نہیں نہیں سلطان معظم یہ بالکل جھوٹ بول رہا ہے میں نے صرف سو سکے ہی اس کی جیب سے نکالے تھے یہ سن کر اس ادمی نے کہا نہیں سلطان معظم یہ کمانڈر پالکل جھوٹ کہہ رہا ہے پھر کمانڈر نے کہا سلطان معظم مجھے اپ چند لمحوں کا وقت دیں میں اس قیدی سے کچھ بات اکیلے میں کرنا چاہتا ہوں سلطان نے اجازت دے دی چند لمحوں بعد کمانڈر نے اس ادمی سے ملاقات کی تو اس نے کہا کہ تم نے مجھ پر جھوٹا الزام کیوں لگایا کہ میں نے تیری جیب سے ہزار سکے چرائے تھے جبکہ میں نے تو تیری جیب سے سو سکے نکالے تھے تو وزیر کے اس دوست نے کہا کیا میں نے وہ سو سکے تاجر سے چھینے تھے کمانڈر نے کہا نہیں تو پھر اس نے کہا جس طرح تم نے جھوٹ بولا اس طرح میں نے بھی جھوٹ بولا پھر وزیر کے دوست نے کہا اگر تم سلطان کے سامنے یہ کہہ دو کہ میں نے کوئی چوری نہیں کی تھی تو میں بھی یہ کہہ دوں گا کہ اس نے بھی 100 سکے ہی میری جیب سے نکالے تھے اور وہ بھی میرے اپنے تھے دونوں میں رضامندی ہو گئی اور جیسے ہی دونوں سلطان کے سامنے حاضر ہوئے کمانڈر نے کہا سلطان معظم میں نے اس کی جیب سے سو سکے نکالے تھے لیکن یہ اس کے اپنے تھے میں نے کسی تاجر کی چوری کے الزام میں اس کو نہیں پکڑا تھا یہ سن کر اس نوجوان نے کہا سلطان معظم میں نے صرف سچ کو ثابت کرنے کے لیے یہ جھوٹ بولا اور مجھے اس کے لیے معاف کیا جائے یہ سن کر سلطان صلاح الدین ایوبی رحمت اللہ علیہ نے اپنے کمانڈر کو جیل میں بند کر دیا اور حکم دیا کہ جتنے دن جس جیل میں یہ نوجوان بند رہا ہے اتنے دن تک اسی جیل میں یہ کمانڈر بند رہے گا اور اس کے ساتھ وہی سلوک ہو گا جو اس نوجوان کے ساتھ ہوا اور پھر اس کے بعد
سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس نوجوان کو سچ کے بدلے 5 گنا زیادہ سکے دیتے ہوئے وہاں سے رخصت کر دیا اور اسی طرح سلطان کے وزیر کی عقلمندی نے اس کے دوست کو اتنی بڑی مشکل سے نکال دیا اور ایک مجرم کو اس کی سزا بھی دلوائی۔
جب انسان راہ حق پر ہو تو اللہ تعالی کی طرف سے وہاں سے امید کی کرن جاگتی ہے وہاں سے اللہ تعالی وسیلہ پیدا کرتا ہے جہاں انسان کی سوچ بھی نہیں ہوتی بشر طیکہ انسان حق پر ہو سچ پر ہو تو یہ معجزات انسانوں کے لیے ہی ہوتے ہیں

Leave a Comment