ایک تھی بڑھیا جس کا نام کائنات تھا اور اس کا ایک بیٹا بھی تھا۔ بیٹا بہت دور رہتا تھا۔ کائنات اکیلی تھی اور بیمار رہتی تھی۔ ایک روز کائنات نے سوچا، چلوں اپنے بیٹے کے گھر۔ لیکن وہ اپنے بیٹے کے گھر کیسے جاتی۔ اس کے پاس نہ گھوڑا تھا اور نہ کوئی سنگی ساتھی۔ وہ کیا کرتی؟ اپنے بیٹے کے گھر کیسے جاتی۔ کائنات نے سوچا، میں کیا کروں؟ اپنے بیٹے کے گھر کیسے جاؤں؟
کائنات کے گھر میں ایک بڑا سا مٹکا تھا۔ مٹکے نے کہا، “کیوں فکر کرتی ہو۔ میں لے جاؤں گا تمہیں، تمہارے بیٹے کے گھر۔” کائنات خوش ہو گئی۔ اس رات بہت بارش ہوئی۔ ندی نالوں میں پانی آ گیا۔ چاروں طرف پانی ہی پانی۔ گلیاں اور بازار پانی سے بھر گئے۔
مٹکے نے کہا، “جلدی کر، چلیں۔” کائنات مٹکے میں بیٹھ گئی۔
مٹکا پانی میں اتر گیا اور تیرنے لگا۔ کائنات بولی، “چل میرے مٹکے ٹم مک ٹم کہاں کی کائنات، کہاں کے تم۔” مٹکا چل پڑا۔ گلیوں اور بازاروں سے ہوتا ہوا۔ راستے میں جنگل تھا۔ جنگل میں جانور تھے۔ جانوروں کو دیکھ کر کائنات ڈر گئی۔ کہنے لگی، “ہائے! مجھے جانور کھا جائیں گے۔”
مٹکا بولا، “ڈر کاہے کا؟”
کائنات نے کہا، “جنگل میں شیر بھی ہو گا۔”
مٹکا بولا، “پھر کیا ہوا؟”
کائنات بولی، “جنگل میں لگڑبھگا بھی ہو گا۔”
مٹکے نے کہا، “ہوتا رہے۔”
کائنات بولی، “جنگل میں ریچھ بھی ہو گا۔”
مٹکے نے کہا، “شیر، لگڑبھگا، ریچھ جنگل میں ہیں تو آتے کیوں نہیں۔”
یہ سن کر شیر، لگڑبھگا اور ریچھ آ گئے۔ شیر بولا، “ہام ہام ہام کائنات کو میں کھاؤں گا۔”
لگڑبھگا بولا، “خی خی خی۔۔۔ کائنات کو میں کھاؤں گا۔”
ریچھ کہنے لگا، “مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ کائنات کو مجھے کھانے دو۔”
کائنات بولی، “کیوں کھاتے ہو مجھے۔ میں تو کمزور سی ہوں۔ مجھے بیٹے کے گھر جانے دو۔ بیٹے کے گھر اچھے اچھے کھانے کھاؤں گی تو موٹی ہوجاؤں گی۔ جب بیٹے کے گھر سے واپس آؤں گی تب کھا لینا۔”
شیر بولا، “ہوں۔” لگڑبھگا اور ریچھ بولے، “ہوں۔”
کائنات کی جان میں جان آئی تو بولی، “چل میرے مٹکے ٹم مک ٹم کہاں کی کائنات، کہاں کے تم۔” مٹکا چل پڑا۔ کائنات جنگل سے نکل کر اپنے بیٹے کے گھر پہنچی۔ وہ بہت خوش تھی۔ بیٹے نے اسے اچھے اچھے کھانے کھلائے۔ کائنات نے جی بھر کر کھایا۔ کھا کھا کر خوب موٹی تازی ہو گئی۔ ایک دن کائنات کہنے لگی، “بیٹا، اب میں اپنے گھر جاؤں گی۔”
بیٹا بولا، “خیر سے جائیں۔”
کائنات مٹکے میں بیٹھ گئی۔ “چل میرے مٹکے ٹم مک ٹم کہاں کی کائنات، کہاں کے تم۔” مٹکا چل پڑا۔ راستے میں جنگل تھا۔ جنگل میں شیر، لگڑبھگا اور ریچھ تھے۔ شیر نے مٹکے میں بیٹھی کائنات کو دیکھ لیا۔ کہنے لگا، “کائنات تو خوب موٹی تازی ہو کر آئی ہے۔”
لگڑبھگا بولا، “خی خی خی۔۔۔ مجھے تو بھوک لگ گئی۔”
ریچھ نے کہا، “آؤ اب کائنات کو کھا لیں۔”
جنگل کے سارے جانور مل کر بولے، “اچھا، تو اب ہم کائنات کو کھائیں گے۔” یہ سن کر کائنات بولی، “پہلے مجھے دو دو مٹھی ریت لا دو، تب کھانا۔” وہ مان گئے۔ دو مٹھی ریت شیر لایا۔ دو مٹھی لگڑبھگا اور دو مٹھی ریچھ لایا۔
کائنات اپنے ہاتھوں میں ریت لے کر بیٹھ گئی اور بولی، “آؤ، اب مجھے کھاؤ۔” جب وہ اسے کھانے کو آگے بڑھے تو کائنات نے مٹھی بھر بھر کر ریت ان کی آنکھوں میں ڈال دی۔ اب جانور اسے کیسے کھاتے؟
کائنات بولی، “چل میرے مٹکے ٹم مک ٹم کہاں کی کائنات، کہاں کے تم۔” مٹکا چل پڑا۔ جنگل کے جانور پیچھے رہ گئے اور کائنات اپنے گھر پہنچ گئی۔