Moral Stories Urdu/Hindi – Shetan ki Asliyat – Urdu Stories

عزرائیل سے ابلیس تک: ایک تاریخِ عبرت

تاریخِ اسلام میں کئی شخصیات اور واقعات ہیں جو انسان کو گمراہی سے بچنے اور ہدایت کی راہ دکھانے کا وسیلہ بنتے ہیں۔ ان میں سے ایک انتہائی اہم اور عبرتناک واقعہ وہ ہے جو ابلیس کی تخلیق اور اس کے گمراہ ہونے کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف انسانوں کی تربیت کے لئے ہے، بلکہ اس میں انسان کو یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اللہ کی رضا اور فرمانبرداری میں ہی کامیابی ہے، اور اپنے اعمال پر غرور و تکبر کرنے والے آخرکار ذلیل و رسوا ہوتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم ابلیس کی تخلیق، اس کی عبادت، اس کی تکبر کی داستان اور اس کی لعنت کے پس منظر پر تفصیل سے گفتگو کریں گے۔

ابلیس کی تخلیق اور اس کا آغاز

ابلیس کا شمار ان مخلوقات میں ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر تخلیق کیں۔ ابلیس کا اصل نام “ابلیس” تھا اور وہ جِنات میں سے تھا، نہ کہ فرشتوں میں۔ روایتوں میں آتا ہے کہ ابلیس کو اللہ نے آگ سے پیدا کیا، جس کی وجہ سے وہ دوسری مخلوقات کی نسبت طاقتور اور سخت دل تھا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا:

“اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، وہ جنات میں سے تھا، اور اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی۔” (القرآن 18:50)

ابلیس کی تخلیق کا مقصد اللہ کی حکمت کی ایک گہری حقیقت کو بیان کرنا تھا۔ اللہ تعالی نے ہر مخلوق کو ایک خاص مقصد کے تحت پیدا کیا، اور ابلیس کو بھی اس دنیا میں ایک خاص آزمائش اور امتحان کے لیے بھیجا گیا تھا۔

ابلیس کی عبادت اور تکبر

ابلیس کی عبادت کا ایک طویل عرصہ تھا، اور اس کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ اس نے زمین کا کوئی ایسا کونہ نہیں چھوڑا جہاں اس نے عبادت نہ کی ہو۔ کائنات کے ہر ذرے پر اس نے اللہ کے سامنے سجدہ کیا، لیکن اس کا دل کبھی سکون نہ پا سکا۔ یہ عبادت نہ صرف اس کی نفسیات کا حصہ بنی، بلکہ اس نے اپنی عبادتوں پر ناز بھی کیا۔ وہ اس بات پر فخر کرتا تھا کہ اس کی عبادتیں بے شمار اور خاص تھیں۔ قرآن میں اس کا تذکرہ یوں آتا ہے:

“ابلیس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں، تُو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اُسے مٹی سے۔” (القرآن 7:12)

ابلیس کی یہ بات اس کے اندر موجود تکبر اور غرور کو ظاہر کرتی ہے۔ اللہ نے جب آدم کو پیدا کیا اور اسے اپنے مخصوص فضل و کرم سے نوازا، تو ابلیس کے دل میں حسد اور تکبر کا جذبہ پیدا ہوگیا۔ وہ یہ برداشت نہیں کر سکا کہ کسی کو اپنی عبادتوں سے بہتر مقام دیا جائے۔

لوح محفوظ اور ابلیس کا گمراہی کا آغاز

جب اللہ تعالی نے آدم کو پیدا کیا اور فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں، تو ابلیس نے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا۔ اس کے تکبر اور اپنے آپ کو بہتر سمجھنے کی وجہ سے وہ سجدہ کرنے سے انکار کر گیا۔ یہ عمل اس کے لیے تباہی کا آغاز ثابت ہوا۔

روایات میں آتا ہے کہ جب فرشتوں نے لوح محفوظ پر لکھا کہ ان میں سے کوئی ایک لعنتی ہونے والا ہے، تو وہ اللہ کے حکم کو تسلیم کرتے ہوئے یہ سمجھ گئے کہ ابلیس وہ شخص ہے جو اپنی تکبر کی وجہ سے لعنت کا شکار ہوگا۔ فرشتوں نے اللہ سے سوال کیا:

“یا اللہ! یہ کیا معاملہ ہے؟”

اللہ تعالی نے اس کی تفصیل بتاتے ہوئے فرمایا:

“ابلیس نے میرے حکم سے انکار کیا ہے اور اس کے دل میں تکبر ہے۔”

یہ بات انسان کو بتاتی ہے کہ تکبر اور غرور انسان کی ہلاکت کا سبب بنتا ہے۔ اللہ کے سامنے عاجزی اور انکساری ہی کامیابی کی کلید ہے۔ ابلیس کی طرح تکبر کرنے والا شخص دراصل اپنے آپ کو اللہ سے بلند سمجھتا ہے، جو کہ ایک سنگین غلط فہمی ہے۔

ابلیس کا انکار اور اس کی سزا

اللہ تعالی نے ابلیس کے انکار کے بعد اس کی سزا کا فیصلہ کر لیا۔ اللہ نے ابلیس سے کہا:

“اے ابلیس! تم پر لعنت ہے اور تم ہمیشہ کے لیے جنت سے نکالے جاؤ گے۔”

ابلیس نے اپنی سزا پر اللہ سے مہلت کی درخواست کی، اور اللہ تعالی نے اس کی درخواست قبول کی۔ اللہ نے فرمایا:

“تمہیں مہلت دی گئی ہے، مگر تم جو کچھ چاہو گے اس کا انجام ہمیشہ رسوائی اور عذاب ہوگا۔”

ابلیس کی یہ مہلت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اللہ کی حکمت اور قدرت کے سامنے کسی کی کوئی طاقت نہیں ہوتی۔ ابلیس کو عذاب کا وعدہ تھا، لیکن اللہ کی مہلت نے اس کے غرور کو اور بڑھا دیا۔ اس نے اللہ سے کہا:

“میں تیرے راستے کو گمراہ کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کروں گا، اور تو جو چاہے کر، میں ان کے دلوں میں وسوسے ڈالوں گا۔”

ابلیس کا انسان کو گمراہ کرنے کا منصوبہ

ابلیس نے اپنی ذلت اور رسوائی کے بعد انسان کو گمراہ کرنے کا عہد کیا۔ اس نے سوچا کہ جو اس کے ساتھ ہوا، وہی انسان کے ساتھ ہو، اور اس طرح وہ اللہ کے راستے سے منحرف ہو کر عذاب کا مستحق ہو۔ اس نے انسانوں کے دلوں میں وسوسے ڈالنا شروع کیے، اور اس کے پیچھے ان لوگوں کی ایک بڑی تعداد آ گئی جو اس کے بہکاوے میں آ کر ہدایت سے منحرف ہو گئے۔

قرآن میں اللہ تعالی نے ابلیس کے اس گمراہ کن عمل کو یوں بیان کیا ہے:

“پھر تم دونوں (آدم و حوا) جنت میں رہو اور وہاں سے تمہارا باہر نکالنا اس کی طرف سے ایک بڑی گمراہی ہے۔” (القرآن 20:117)

یہ آیت بتاتی ہے کہ ابلیس کا کام انسانوں کو گمراہ کرنا ہے۔ وہ اپنی گمراہی میں انسانوں کو بھی شریک کرتا ہے، تاکہ اللہ کی رضا سے دور ہو جائیں اور آخرکار اس کے عذاب کا شکار ہوں۔

ابلیس کا کردار اور انسانوں کے لئے سبق

ابلیس کا واقعہ انسان کے لئے ایک عبرت ہے۔ اس کی تخلیق، عبادت، تکبر، اور پھر گمراہی کا سفر ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اللہ کی رضا میں ہی سکون اور کامیابی ہے۔ جب انسان اپنے اعمال پر غرور کرنے لگتا ہے، اور اللہ کی رضا کو نظر انداز کرتا ہے، تو وہ بھی ابلیس کی طرح ذلیل و رسوا ہو سکتا ہے۔

ابلیس کی تخلیق سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ انسان کو اللہ کے حکم کو قبول کرنا چاہئے اور اپنی عبادتوں پر فخر نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالی نے انسان کو مختلف آزمائشوں میں ڈالا ہے، اور جب انسان ان آزمائشوں میں اللہ کی رضا کی کوشش کرتا ہے، تو وہ کامیاب ہوتا ہے۔

نتیجہ

ابلیس کی کہانی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اللہ کے راستے پر چلنا اور اس کے حکم کو تسلیم کرنا ہی انسان کی کامیابی کی کلید ہے۔ تکبر اور غرور انسان کو اس کی تقدیر کے برعکس لے جاتا ہے، اور آخرکار وہ تباہی کا شکار ہوتا ہے۔ ابلیس کی طرح انسان کو اللہ کے سامنے اپنی عاجزی اور انکساری کو برقرار رکھنا چاہئے، تاکہ وہ اللہ کی رضا کی راہ پر چل سکے۔ اللہ کی ہدایت کے بغیر انسان کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ابلیس کی گمراہی اور اس کی تکبر کی کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہمیں ہمیشہ اللہ کے راستے پر چلنا چاہئے، اور اس کی رضا کے لئے اپنی عبادتوں اور عملوں کو خالص کرنا چاہئے۔

Leave a Comment