حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا کنعان (یام): ایک تفصیلی جائزہ
حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر قرآنِ مجید، احادیث مبارکہ، اور اسلامی روایات میں تفصیل سے آیا ہے۔ آپؑ کو “شیخ الانبیاء” بھی کہا جاتا ہے کیونکہ آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے طویل عمر عطا کی اور طوفانِ نوح جیسے عظیم معجزے میں آپ کو اہم کردار سونپا۔ حضرت نوحؑ کی کشتی اور ان کے نافرمان بیٹے کنعان (یام) کا واقعہ اسلام کی تعلیمات میں بہت گہری معنویت رکھتا ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام کی دعوتِ حق
حضرت نوح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے نبوت عطا کی اور انہیں اپنی قوم کو توحید کی دعوت دینے کا حکم دیا۔ قرآنِ مجید میں آپؑ کے الفاظ یوں نقل کیے گئے ہیں:
(سورۃ الاعراف: 59)
ترجمہ: “اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔”
حضرت نوحؑ نے اپنی قوم کو 950 سال تک اللہ کی وحدانیت کی دعوت دی، لیکن ان کی قوم نے ان کی بات نہ مانی۔
کشتی کی تعمیر اور اس کے احکام
جب حضرت نوح علیہ السلام کی قوم ہدایت قبول نہ کر سکی، تو اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا کہ ان پر عذاب نازل کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوحؑ کو ایک کشتی بنانے کا حکم دیا:
(سورۃ ہود: 37)
ترجمہ: “اور ہماری نگرانی اور وحی کے مطابق کشتی بناؤ اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے بات نہ کرنا، بے شک وہ غرق کیے جائیں گے۔”
کشتی کے سائز اور ساخت کا ذکر
اسلامی روایات کے مطابق، حضرت نوحؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ایک بڑی کشتی تیار کی، جس کا سائز تقریباً 386 × 686 ہاتھ تھا۔ یہ کشتی تین منزلوں پر مشتمل تھی:
- پہلی منزل: جانوروں کے لیے
- دوسری منزل: انسانوں کے لیے
- تیسری منزل: پرندوں کے لیے
یہ کشتی ایک معجزاتی ساخت رکھتی تھی اور اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں بنائی گئی تھی۔
کنعان (یام): نافرمان بیٹے کا ذکر
حضرت نوح علیہ السلام کے چار بیٹے تھے: سام، حام، یافث، اور کنعان (جسے یام بھی کہا جاتا ہے)۔ کنعان نے اپنے والد کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور اپنی قوم کے کفار کے ساتھ رہنا پسند کیا۔ جب طوفان کا وقت آیا، تو حضرت نوحؑ نے کنعان کو کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دی:
(سورۃ ہود: 42)
ترجمہ: “اور نوحؑ نے اپنے بیٹے کو پکارا، جو (کافروں سے) الگ تھا: اے میرے بیٹے! ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں کے ساتھ نہ رہ۔”
کنعان کا انکار اور ہلاکت
کنعان نے اپنے والد کی بات ماننے کے بجائے کہا کہ وہ پہاڑ پر چڑھ کر طوفان سے بچ جائے گا:
(سورۃ ہود: 43)
ترجمہ: “اس نے کہا: میں ابھی کسی پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا جو مجھے پانی سے بچا لے گا۔”
حضرت نوحؑ نے جواب دیا:
(سورۃ ہود: 43)
ترجمہ: “آج اللہ کے حکم سے کوئی بچانے والا نہیں، سوائے اس کے جس پر اللہ رحم کرے۔”
اس کے بعد کنعان طوفان کی موجوں کی نذر ہو گیا اور غرق ہو گیا۔ یہ واقعہ نافرمانی کی سزا اور اللہ کے حکم کی عظمت کو واضح کرتا ہے۔
کنعان کا واقعہ: ایک سبق
کنعان کا انجام اس بات کی علامت ہے کہ اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچ سکتا، چاہے وہ نبی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ نجات صرف ایمان اور اللہ کی فرمانبرداری میں ہے۔
قرآن کا پیغام
قرآنِ مجید اس واقعے کو بطور عبرت بیان کرتا ہے تاکہ انسان اللہ کے احکام کی پیروی کرے اور نافرمانی سے باز رہے۔ حضرت نوحؑ کے بیٹے کا انجام اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کی نظر میں تقویٰ اور فرمانبرداری سب سے اہم ہیں:
(سورۃ ہود: 46)
ترجمہ: “وہ (کنعان) تیرے اہل میں سے نہیں، اس کے عمل ٹھیک نہیں تھے۔”
نتیجہ
حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی، اس کا عظیم سائز، اور کنعان کا واقعہ اسلامی تعلیمات میں ایک نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ واقعہ ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ایمان اور عملِ صالح ہی حقیقی نجات کا ذریعہ ہیں۔ یہ واقعہ ان لوگوں کے لیے ایک سبق ہے جو اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ دنیاوی طاقت یا وسائل انہیں اللہ کے عذاب سے بچا سکتے ہیں۔