پنڈت کے اللہ والے سے تین مشکل سوال
ایک گاؤں میں ایک اللہ والا بزرگ رہتے تھے جن کی عبادت، علم، اور حکمت کے قصے پورے علاقے میں مشہور تھے۔ ہر شخص ان سے رہنمائی لینے آتا، اور ان کی باتوں میں دلوں کی سکونت اور روحوں کی پاکیزگی ہوتی تھی۔ ایک دن گاؤں میں ایک پنڈت آیا جسے اپنے علم پر بہت ناز تھا۔ وہ اپنے مذہب کا پیروکار تھا اور ہر بات کو عقلی بنیاد پر سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔
پنڈت نے اللہ والے کے پاس جا کر تین مشکل سوالات پوچھے تاکہ وہ اپنی ذہانت کو آزما سکے۔ اللہ والے نے بڑی محبت سے پنڈت کو قبول کیا اور کہا: “بیٹے، سوال پوچھو، لیکن یاد رکھو، جو بھی پوچھو، اس کا جواب دل کی گہرائی سے ہوگا، نہ کہ صرف عقلی دلیل سے۔”
پہلا سوال: پنڈت نے پہلا سوال پوچھا: “اگر اللہ سب کچھ پیدا کرنے والا ہے، تو پھر انسان کو برے کام کرنے کی آزادی کیوں دی گئی؟ اگر اللہ جانتا ہے کہ انسان برے کام کرے گا، تو پھر اس نے اسے پیدا ہی کیوں کیا؟”
اللہ والے نے مسکرا کر جواب دیا: “بیٹے، اللہ نے انسان کو آزادی دی کیونکہ اس میں ایک مقصد تھا۔ اگر اللہ انسان کو مجبور کرتا کہ وہ صرف اچھے کام کرے، تو اس کی محبت اور بندگی کا کیا فائدہ ہوتا؟ اللہ نے انسان کو آزمائش کی حالت میں چھوڑا تاکہ وہ اپنی مرضی سے اچھے یا برے کام کرنے کا انتخاب کرے، اور اس کے اعمال کے مطابق وہ جزا یا سزا کا مستحق ہو۔ انسان کی آزادی دراصل اس کے لیے آزمائش ہے، اور اسی میں اس کی عظمت اور اللہ کی رضا کا راز چھپا ہے۔”
دوسرا سوال: پنڈت نے دوسرا سوال کیا: “اگر اللہ ہر جگہ موجود ہے، تو پھر دنیا میں اتنی تکالیف اور مشکلات کیوں ہیں؟ کیا اللہ کو انسانوں کی تکالیف نظر نہیں آتیں؟”
اللہ والے نے گہرائی سے سوچا اور پھر کہا: “بیٹے، اللہ کی موجودگی ہر جگہ ہے، لیکن اس کی حکمت اور پلان ہر کسی کے سمجھنے سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ دنیا امتحان کی جگہ ہے، اور تکالیف انسانوں کے لیے ایک دروازہ ہیں جو انہیں مضبوط بنانے کے لیے کھلے ہیں۔ اگر تکلیف نہ ہو تو انسانوں کی صلاحیتیں کبھی ظاہر نہ ہوں، اور وہ اللہ کی رضا کے راستے پر کبھی نہیں پہنچ پائیں گے۔ مشکلات اور پریشانیاں انسان کی روح کی صفائی کے لیے ضروری ہیں، اور جب وہ اللہ کی رضا کے لیے ان کا سامنا کرتے ہیں، تو وہ اس کے قریب ہوتے ہیں۔”
تیسرا سوال: پنڈت نے تیسرا سوال پوچھا: “اگر اللہ نے انسان کو اپنی عقل دی ہے تو پھر کیوں انسان کو ایمان کے بغیر بھی اچھے کام کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے؟ کیا یہ عقل اللہ کی مرضی کے خلاف نہیں ہے؟”
اللہ والے نے ایک لمبی سانس لے کر کہا: “بیٹے، اللہ نے انسان کو عقل دی تاکہ وہ اپنی زندگی کو بہتر بنا سکے، لیکن اس عقل کا استعمال اللہ کے راستے پر چلنے کے لیے ہونا چاہیے۔ عقل کو جب صحیح سمت میں لگایا جاتا ہے، تو وہ انسان کو اللہ کی طرف راغب کرتی ہے۔ اگر عقل کو صرف دنیاوی فائدوں کے لیے استعمال کیا جائے، تو وہ کبھی بھی اللہ کے قریب نہیں پہنچ سکتی۔ لیکن جب عقل، دل کی صفائی اور ایمان کے ساتھ جڑتی ہے، تو وہ انسان کو اللہ کی رضا تک پہنچاتی ہے۔”
پنڈت ان جوابات سے بہت متاثر ہوا، اور اس نے اللہ والے کا شکریہ ادا کیا۔ اس نے اپنے دل میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ اب صرف عقل کے ذریعے ہی نہیں، بلکہ دل اور روح کے ذریعے بھی اللہ کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرے گا۔
اس واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ کا علم اور حکمت انسان کی سمجھ سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ ایمان اور عقل کا توازن ہی انسان کو حقیقت کی طرف رہنمائی فراہم کرتا ہے، اور اس کے ذریعے وہ اللہ کی رضا کے قریب پہنچتا ہے۔