حضرت عبدالرحمن بن عوف

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے دو روز بعد ہی اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کر لی تھی۔ انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد تمام تر سختیاں انتہائی صبر و تحمل سے برداشت کیں۔ یہ ان مہاجرین میں شامل تھے جنہوں نے اپنے دین کی حفاظت کے لیے سرزمین حبشہ کی طرف ہجرت کا سفر اختیار کیا تھا۔ حبشہ سے واپس آنے کے بعد جب قریش مکہ نے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کر دیا تو رسول الله علنی علی الم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا تو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں شامل تھے۔
مدینہ منورہ میں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حضرت سعد ابن ربیع رضی اللہ عنہ کا بھائی بنا دیا۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے اس بھائی چارے کا اتنا پاس کیا کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کو مخلصانہ پیشکش کرتے ہوئے کہا: بھائی ! میں مدینہ کا مالدار ترین آدمی ہوں۔ آج سے میرا آدھا مال تمہارا، علاوہ ازیں میری دو بیویاں ہیں، میں ان میں سے ایک کو طلاق دے دیتا ہوں۔ تم اس کے ساتھ نکاح کر لو۔ حضرت عبدالرحمن نے جواب دیا: اللہ تبارک و تعالی آپ کے مال اور گھر میں مزید برکت نازل فرمائے۔ میں آپ سے کوئی چیز نہیں لوں گا۔ مجھے تو بس آپ بازار کا راستہ بتا دیجئے۔ آپ نے بازار جاکر کچھ خرید و فروخت کی اور رات کو کچھ پنیر اور تھوڑا سا گھی منافع میں کما کر لائے۔
اللہ پاک نے آپ کے کاروبار میں برکت ڈالی اور جلد ہی اتنے پیسے جمع ہو گئے کہ ایک دن حضور اکرم ملی ام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو زعفران لگا رکھا تھا۔ چونکہ عرب میں زعفران دولہا کو لگایا جاتا تھا۔ اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: کیا کر آئے ہو ؟ عرض کیا: یا رسول اللہ صلی ال اہم شادی کرلی ہے۔ رحمت عالم ملی علی ایم کو خوشی ہوئی اور پوچھا مہر کتنا مقرر کیا ہے؟ کھجور کی گٹھلی کے مساوی سونا۔ انہوں نے جواب دیا۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولیمہ ضرور کرنا، خواہ ایک بکری ہی سے کیوں نہ ہو۔ پھر ان کی تجارت میں روز افزوں ترقی ہوتی گئی اور آپ کا شمار دولت مندوں میں ہونے لگا۔ خوش قسمتی کا یہ عالم تھا کہ خود فرماتے تھے: اگر میں پتھر اٹھاؤں تو مجھے توقع ہوتی ہے کہ اس کے نیچے سے بھی سونا یا چاندی برآمد ہو گی۔ مال و دولت کی فراوانی کا تاریک پہلو یہ ہے کہ بروز قیامت ہر چیز کا حساب دینا پڑے گا۔ جبکہ فقیر کے لیے یہ مرحلہ آسان ہو گا اور وہ جلدی سے فارغ ہو جائے گا۔ اسی بناء پر ایک مرتبہ حضور اکرم لی ہم نے ان سے فرمایا: عبدالرح رحمن ! ! تم اغنیاء میں – اسے ، ہو، ہوا اس لیے جنت میں گھسٹتے ہوئے داخل ہو گے ۔ اللہ کے ہاں کچھ بھیجو تا کہ تمہارے قدم پل صراط پر رواں ہو جائیں۔ کیا بھیجوں؟ یا رسول اللہ علی یہ کام آپ ملی یا ہم نے فرمایا: جو کچھ تمہارے پاس ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا یہ : اے اللہ کے رسول صلی اہم سارے کا سارا ؟ آپ مالی علی کریمی نے فرمایا: ہاں سب کچھ۔حضرت عبدالرحمن بن عوف یہ سنتے ہی اٹھے اور سب کچھ راہ خدا میں لوٹانے کے ارادے سے چل پڑے۔
اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور عرض کی: یارسول الله علیم ابن عوف سے کہئے کہ اگر وہ مہمان نوازی کرتے رہیں، مسکینوں کو کھانا کھلاتے رہیں، مانگنے والوں کو دیتے رہیں اور اہل و عیال پر خرچ کرتے رہیں تو یہ ان کے لئے کافی ہے۔ اس سے ان کے مال کا تزکیہ ہو جائے گا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے یہ نصیحت پہلے باندھ لی اور جود و عطا کا بازار گرم کر دیا۔ ایک دفعہ ان کا بہت بڑا تجارتی قافلہ مدینہ منورہ پہنچا۔ 500 جانور ساز و سامان سے لدے ہوئے تھے۔ اہل مدینہ اتنا بڑا کاروان تجارت دیکھ کر حیران رہ کئے۔ مگر ان کو اس سے بھی زیادہ حیرت سے اس وقت دوچار ہونا پڑا جب حضرت عبدالرحمن نے اعلان کیا: بار برداری کی یہ سارے جانور بمعہ اس سامان کے جوان پر بار ہے اللہ کی راہ میں صدقہ ہیں۔ ایک دفعہ ان کی زمین چالیس ہزار اشرفیوں میں فروخت ہوئی۔ انہوں نے وہ تمام اشرفیاں ازواج مطہرات میں تقسیم کردیں۔ وفات نبوی لی لی اسلام کے بعد ازواج مطہرات کی ضروریات کا خیال رکھنے والے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے نبی کریم علی السلام نے یہ دعا فرمائی: اللہ تعالی ابن عوف کو جنت کے چشمے سلسبیل سے سیراب کرے۔ ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے بھی یہی دعا فرمائی۔ ( معجم الاوسط )
علاوہ ازیں انہوں نے تیس ہزار 30,000 غلام گھرانوں کو خرید کر آزاد کیا۔ نہ جانے ہر گھرانے میں کتنے افراد ہوں گے جو آزادی کی نعمت سے مالا مال ہو گئے۔ حضور نبی کریم می کریم کا ارشاد ہے کہ میری امت کے مال داروں میں سب سے پہلے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ جنت میں داخل ہوں گے۔ (مسند بزار عن انس)
صحابہ کرام میں حضرت ابو بکر صدیق کے علاوہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ ہی ایسے صحابی ہیں جن کو یہ شرف حاصل ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے سفر کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کی نماز سے پہلے حوائج ضروریہ سے فراغت کے لئے دور تشریف لے گئے۔ میں بھی آپ ملی کی ایم کے ساتھ تھا۔ فراغت کے بعد ملی ہم نے وہیں وضو فرمایا۔ جب ہم واپس پہنچے تو جماعت کھڑی ہو چکی تھی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نماز پڑھا رہے تھے۔ میں نے چاہا کہ ان کو رسول اللہ یم کی آمد سے مطلع کر دوں تاکہ وہ پیچھے ہٹ جائیں۔ مگر رسول اللہ صلی علی سلیم نے مجھے منع کر دیا اور جماعت میں شامل ہو گئے ایک رکعت ہو چکی تھی۔ اس لیے ایک رکعت ہم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف کے ساتھ پڑھی اور سلام کے بعد اپنی باقی ماندہ نماز مکمل کی۔ جس امام کے پیچھے امام المرسلین می کنیم نے نماز پڑھی اس کی امامت کا کیا کہنا۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروق نے بوقت وفات چھ جنتی صحابہ کرام حضرت عثمان غنی، حضرت علیؓ، حضرت سعد بن بن ابی وقاص، حضرت زبیر بن عوام، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نام لے کر یہ وصیت فرمائی کہ میرے بعد ان چھ شخصوں میں سے جس پر اتفاق رائے ہو جائے، اس کو خلیفہ مقرر کیا جائے اور تین دن کے اندر خلافت کا مسئلہ ضرور طے کر دیا جائے اور ان تین دنوں تک حضرت صہیب رضی اللہ تعالی عنہ مسجد نبوی میں امامت کرتے رہیں گے۔ اس وصیت کے مطابق یہ حضرات ایک مکان میں جمع ہو کر دو روز تک مشورہ کرتے رہے، مگر یہ مجلس شوری کسی نتیجہ پر نہ پہنچی۔ تیسرے دن حضرت عبدالرحمن بن عوف نے فرمایا: تم لوگ جانتے ہو کہ آج تقرر خلافت کا تیسرا دن ہے، لہذا تم لوگ آج اپنے میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کر لو۔ حاضرین نے کہا: اے عبد الرحمن رضی اللہ عنہ ہم لوگ تو اس مسئلے کو حل نہیں کر سکے۔ اگر آپ کے ذہن میں کوئی تجویز ہو تو پیش کیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ چھ آدمیوں کی جماعت ایثار سے کام لے اور تین آدمیوں کے حق میں اپنے اپنے حق سے دستبردار ہو جائے۔ یہ سن کر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اعلان فرما دیا کہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں اپنے حق سے دستبردار ہوتا ہوں۔ پھر حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عثمان غنی کے حق میں اپنے حق سے کنارہ کش ہو گئے۔ آخر میں حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میں نے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنا حق دے دیا۔
اب خلافت کا حقدار حضرت عثمان غنی، حضرت علیؓ، اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رہ کئے۔ پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: اے عثمان اور علی ! میں تم دونوں کو یقین دلاتا ہوں کہ میں ہر گز ہر گز خلیفہ نہیں بنوں گا۔ اب تم دو ہی امیدوار رہ کئے ہو، اس لیے تم دونوں خلیفہ کے انتخاب کا حق مجھے دے دو۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے انتخاب خلیفہ کا مسئلہ خوشی خوشی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کے سپرد کر دیا۔ اس گفتگو کے مکمل ہو جانے کے بعد حضرت عبدالرحمن مکان سے باہر نکل آئے اور پورے شہر مدینہ میں خفیہ طور پر گشت کر کے ان دونوں امیدواروں کے بارے میں رائے عامہ معلوم کرتے رہے۔ پھر دونوں امید واروں سے الگ الگ تنہائی میں یہ عہد لیا کہ اگر میں تم کو خلیفہ بنادوں تو تم عدل کروگے اور اگر دوسرے کو خلیفہ مقرر کر دوں تو تم اس کی اطاعت کرو گے۔ جب دونوں امیدواروں سے یہ عہد لے لیا تو پھر آپ آپ رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں آکر یہ اعلان فرمایا کہ اے لوگو! میں نے خلافت کے معاملہ میں خود بھی کافی غور و خوض اور اس معاملے میں انصار و مہاجرین کی رائے عامہ بھی معلوم کر لی ہے۔ چونکہ رائے عامہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں زیادہ ہے، اس لئے میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ منتخب کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر سب سے پہلے آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی بیعت کی اور آپ کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور دوسرے سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بیعت کر لی۔ اس طرح خلافت کا مسئلہ بغیر کسی اختلاف و انتشار کے طے ہو گیا جو بلا شبہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک بہت بڑی کرامت ہے۔
(عشرہ مبشرہ 231، بخاری 524/1، مناقب عثمان)