English Moral story in urdu hindi with english subtitles — story of King — بادشاہ کا فیصلہ

خاموشی آپ کی جان بچا سکتی ہے

کسی زمانے میں ایک ظالم بادشاہ تھا جو اپنی طاقت کے نشے میں مست تھا۔ وہ اپنی رعایا کو ہر وقت خوف میں رکھتا تھا تاکہ کوئی اس کے خلاف آواز نہ اٹھا سکے۔ ایک دن، بادشاہ نے اپنے دربار میں تین مشہور شخصیات کو گرفتار کروا لیا: ایک عالم، ایک وکیل، اور ایک فلسفی۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ بادشاہ کی حکومت کے خلاف بات کر رہے ہیں، حالانکہ وہ بے گناہ تھے۔

بادشاہ نے ان تینوں کو سزائے موت کا حکم دیا اور اعلان کیا کہ ان کی موت ایک عجیب اور خوفناک طریقے سے ہوگی۔


پھانسی گھاٹ کا منظر

پھانسی گھاٹ ایک خاص جگہ پر بنایا گیا تھا۔ وہاں ایک بہت بڑا لکڑی کا تختہ تھا، جس کے اوپر ایک مینار کھڑا تھا۔ مینار کی چوٹی پر ایک بھاری پتھر چرخے کے ساتھ بندھا ہوا تھا۔ بادشاہ کا منصوبہ یہ تھا کہ جب کوئی قیدی اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کرے، تو چرخے کو کھولا جائے اور پتھر قیدی پر گرے، یوں ان کی موت واقع ہو۔

بادشاہ نے کہا:
“تم تینوں میں سے جو بھی بولے گا، وہ اپنی موت کو خود دعوت دے گا۔ لیکن اگر تم خاموش رہو گے، تو میں تمہیں بخشنے پر غور کر سکتا ہوں۔”


پہلا قیدی: عالم

پہلے عالم کو لایا گیا۔ وہ ایک ذہین اور دیندار انسان تھا، لیکن اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی بے پناہ خواہش نے اسے بولنے پر مجبور کر دیا۔
“بادشاہ سلامت! میں نے کوئی گناہ نہیں کیا! میں تو صرف علم کی روشنی پھیلانا چاہتا تھا۔ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے!”

بادشاہ نے چرخے کی طرف اشارہ کیا۔ سپاہیوں نے چرخہ کھول دیا، اور بھاری پتھر عالم پر گر گیا۔ عالم کی زندگی کا خاتمہ ہو گیا۔


دوسرا قیدی: وکیل

اب وکیل کی باری آئی۔ وہ جانتا تھا کہ بادشاہ ظالم ہے، لیکن اپنی دلیل دینے کی عادت سے مجبور تھا۔
“بادشاہ سلامت! آپ کے فیصلے میں غلطی ہے۔ میں بے گناہ ہوں اور میرے پاس ثبوت بھی ہیں۔ آپ یہ ظلم کیوں کر رہے ہیں؟”

بادشاہ نے اشارہ کیا، اور چرخے کو دوبارہ کھول دیا گیا۔ پتھر نیچے آیا اور وکیل کی زندگی بھی ختم ہو گئی۔


تیسرا قیدی: فلسفی

اب فلسفی کی باری تھی۔ وہ ان دونوں کی موت دیکھ چکا تھا اور سمجھ گیا تھا کہ بولنا اس کی جان لے سکتا ہے۔ فلسفی نے خود پر قابو پایا اور مکمل خاموشی اختیار کی۔

بادشاہ نے فلسفی کی طرف دیکھا اور کہا:
“تم کچھ نہیں کہو گے؟ تمہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی خواہش نہیں؟”

فلسفی نے نگاہیں جھکا لیں اور کچھ نہیں کہا۔ اس کی خاموشی گہری اور پرسکون تھی۔

بادشاہ کچھ دیر انتظار کرتا رہا، پھر قہقہہ لگا کر بولا:
“تم نے عقل مندی کا مظاہرہ کیا۔ خاموشی کبھی کبھی سب سے بڑی دلیل ہوتی ہے۔ میں تمہیں معاف کرتا ہوں!”


نتیجہ

فلسفی کی خاموشی نے اس کی جان بچا لی، جبکہ باقی دونوں اپنی بات منوانے کی کوشش میں اپنی زندگی گنوا بیٹھے۔ بادشاہ کے دربار میں یہ واقعہ مثال بن گیا اور رعایا تک یہ پیغام پہنچا کہ کبھی کبھی خاموشی ہی سب سے بڑی حکمت ہوتی ہے۔


اخلاقی سبق

کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ بعض اوقات، حالات کے مطابق خاموشی اختیار کرنا ہی سب سے عقلمندی کا راستہ ہوتا ہے۔ زبان کو قابو میں رکھنا جان بچا سکتا ہے، اور خاموشی بعض اوقات وہ کام کر دیتی ہے جو الفاظ نہیں کر سکتے۔

Leave a Comment