فرمان حضرت علی: انسان، خواہش، اور عقل کا فلسفہ
حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت علم و حکمت کا ایسا سمندر ہے جس کی گہرائیوں میں بے شمار موتی پوشیدہ ہیں۔ ان کے اقوال نہ صرف ایک انسان کی انفرادی زندگی بلکہ اجتماعی فکر اور معاشرتی اصولوں کے لیے بھی رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ ان کے ایک مشہور قول میں فرمایا گیا:
“جانور میں خواہش ہوتی ہے اور فرشتے میں عقل، مگر انسان میں دونوں ہوتی ہیں؛ اگر وہ عقل کو اپنائے تو فرشتے جیسا بن سکتا ہے اور اگر خواہش کے پیچھے چلے تو جانور جیسا ہو جاتا ہے۔”
یہ قول انسانی ذات، اس کے مقصدِ حیات، اور اس کی اخلاقی سمت کے بارے میں نہایت گہرائی سے روشنی ڈالتا ہے۔ اس کی بنیاد پر ہم عقل، خواہش، اور انسانی کردار کو مختلف زاویوں سے سمجھ سکتے ہیں۔
انسانی ذات کی پیچیدگی
انسان کائنات کا واحد مخلوق ہے جس میں خواہش اور عقل دونوں موجود ہیں۔ یہ دونوں عناصر انسان کے کردار اور اس کے عمل پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں:
- خواہش کا پہلو
خواہش انسان کے جسمانی تقاضوں اور جذباتی میلانات کا مظہر ہے۔ یہ جبلتوں کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے، جیسے بھوک، پیاس، محبت، نفرت، اور بقا کی جستجو۔ اگر یہ خواہشات غیر متوازن یا بے قابو ہو جائیں تو انسان کے رویے پر حیوانیت غالب آ سکتی ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جو انسان کو جانوروں کے قریب لے آتا ہے۔ - عقل کا پہلو
عقل، انسان کے فکری اور شعوری پہلو کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ انسان کو صحیح اور غلط، خیر اور شر، اور جائز اور ناجائز کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔ عقل کا مقصد انسان کو ان بلند اخلاقی اقدار کی جانب رہنمائی دینا ہے جو اسے فرشتوں کے قریب کرتی ہیں۔
عقل اور خواہش کے درمیان کشمکش
انسانی زندگی میں عقل اور خواہش کے درمیان ایک مسلسل جنگ جاری رہتی ہے۔ خواہش انسان کو فوری تسکین اور لذت کی طرف راغب کرتی ہے، جبکہ عقل اسے دور اندیشی، خود پر قابو پانے، اور اعلیٰ مقاصد کے حصول کی ترغیب دیتی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام کے اس قول کا اہم پہلو یہ ہے کہ انسان کو خود فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو کس سمت میں لے جانا چاہتا ہے:
- اگر وہ خواہش کے غلام بن جائے تو اس کی زندگی حیوانی سطح پر محدود ہو جاتی ہے، جہاں صرف جسمانی لذتیں اور ذاتی مفادات ہی اس کے اعمال کی بنیاد بنتے ہیں۔
- اگر وہ عقل کو اپنا رہنما بنائے تو وہ ان اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر عمل پیرا ہو سکتا ہے جو اسے انسانی عظمت اور روحانی بلندیوں تک لے جاتے ہیں۔
خواہش کو قابو میں رکھنے کے فوائد
خواہش کو قابو میں رکھنا اور عقل کی رہنمائی میں زندگی گزارنا ایک مشکل لیکن ضروری عمل ہے۔ اس کے درج ذیل فوائد ہیں:
- اخلاقی بلندی
خواہش کو قابو میں رکھنے سے انسان اپنی شخصیت کو بہتر بنا سکتا ہے اور بلند اخلاقی اقدار کو اپنانے کے قابل ہو جاتا ہے۔ - روحانی سکون
خواہشات کی بے قابو پیروی عموماً بے سکونی اور اضطراب کا سبب بنتی ہے۔ اس کے برعکس، عقل کی رہنمائی میں زندگی گزارنے سے روحانی سکون اور قلبی اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ - معاشرتی استحکام
خواہشات پر قابو پانے والے افراد اپنے معاشرے میں امن، انصاف، اور بھائی چارے کو فروغ دینے میں کردار ادا کرتے ہیں، جبکہ خواہشات کی پیروی انتشار اور بدامنی کا سبب بن سکتی ہے۔
عقل کو اپنانا: فرشتوں کی صف میں شامل ہونے کی کنجی
فرشتے وہ مخلوق ہیں جو صرف عقل اور اطاعت کے دائرے میں کام کرتی ہے۔ ان میں خواہش یا گناہ کی صلاحیت نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ کے حکم کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ انسان میں خواہش اور عقل دونوں کا امتزاج اسے فرشتوں سے زیادہ عظیم بنا سکتا ہے، بشرطیکہ وہ اپنی عقل کا استعمال کرے۔
- علم اور حکمت کی اہمیت
عقل کو مضبوط کرنے کے لیے علم حاصل کرنا ضروری ہے۔ علم انسان کو نہ صرف دنیاوی معاملات میں رہنمائی دیتا ہے بلکہ روحانی ترقی کے دروازے بھی کھولتا ہے۔ - ضبط نفس کی ضرورت
خواہشات کو قابو میں رکھنے کے لیے ضبط نفس انتہائی اہم ہے۔ یہ وہ صفت ہے جو انسان کو اپنی حدود میں رہنے اور اعلیٰ مقاصد کی جانب بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔ - اللہ سے تعلق
عقل کو اپنانے کا سب سے بڑا ذریعہ اللہ سے قربت ہے۔ عبادات، دعا، اور ذکر انسان کی روحانی قوت کو مضبوط بناتے ہیں، جس سے وہ اپنی خواہشات پر قابو پا سکتا ہے۔
نتیجہ: انسانیت کا حقیقی مقصد
حضرت علی علیہ السلام کے اس قول کی روشنی میں انسانیت کا حقیقی مقصد واضح ہو جاتا ہے: اپنی خواہشات پر قابو پا کر عقل کو اپنانا اور فرشتوں جیسی صفات کو اپنانے کی کوشش کرنا۔ یہ عمل نہ صرف انسان کو دنیا میں کامیاب بناتا ہے بلکہ آخرت میں بھی کامیابی کی ضمانت دیتا ہے۔
یہ قول ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسان کا انتخاب اس کی زندگی کی سمت متعین کرتا ہے۔ اگر ہم اپنی عقل کو اپنا رہنما بنائیں اور خواہشات کو قابو میں رکھیں، تو ہم اس مقام تک پہنچ سکتے ہیں جسے حضرت علی علیہ السلام نے فرشتوں سے تشبیہ دی ہے۔
پسِ تحریر:
یہ قول نہ صرف ایک نصیحت بلکہ ایک حکمت سے بھرپور فلسفہ ہے جو انسان کو اپنی زندگی کے ہر پہلو میں غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔