Hazrat Umar Farooq R A Ka Insaaf – Hazrat Umar Ka Waqia – Islamic urdu Stories

حضرت عمر فاروق کا انصاف: مصری کی شکایت

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت عدل و انصاف کا ایک سنہری دور تھا۔ آپ نے اپنی حکمرانی میں نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کے حقوق کا بھی خاص خیال رکھا۔ آپ کا اصول تھا کہ کسی کے ساتھ ظلم یا ناانصافی برداشت نہیں کی جائے گی، چاہے وہ حاکم وقت کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔

ایک دن، خلافتِ راشدہ کے دارالحکومت مدینہ میں، ایک مصری شخص سفر کر کے آیا۔ وہ بے حد پریشان اور تھکا ہوا نظر آ رہا تھا، مگر اس کے چہرے پر امید کی جھلک تھی کہ یہاں اسے انصاف ملے گا۔

مصری کی فریاد

مصری شخص مسجد نبوی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش ہوا اور کہا:
“یا امیر المؤمنین! میں مصر سے آیا ہوں۔ وہاں کے حاکم عمر و بن عاص کے بیٹے نے میرے ساتھ ظلم کیا ہے۔ ہم نے دوڑ کا مقابلہ کیا، جس میں میں جیت گیا۔ یہ بات اس کے لیے ناقابل برداشت تھی، اس نے غصے میں آ کر مجھے مارا اور کہا: ‘میں حاکم کا بیٹا ہوں، تم مجھ سے کیسے جیت سکتے ہو؟’”

یہ سنتے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ آپ نے مصری سے پوچھا:
“کیا تمہیں یقین ہے کہ تمہارے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا؟”

مصری نے جواب دیا:
“یا امیر المؤمنین! اگر مجھے یقین نہ ہوتا، تو میں اتنی دور سفر کر کے یہاں نہ آتا۔”

فوری اقدامات

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فوراً ایک خط لکھا اور اسے مصر کے حاکم، عمرو بن عاص، کے پاس روانہ کیا۔ خط میں حکم دیا کہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ مدینہ حاضر ہوں۔

چند دنوں کے بعد، عمرو بن عاص اپنے بیٹے کے ساتھ مدینہ پہنچے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے حاضر ہوئے۔

انصاف کا مظاہرہ

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مصری کو بلایا اور عمرو بن عاص کے بیٹے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
“یہ وہی ہے جس نے تم پر ظلم کیا تھا؟”

مصری نے جواب دیا:
“جی ہاں، یہی وہ شخص ہے۔”

حضرت عمر نے فوراً مصری کو حکم دیا کہ وہ عمرو بن عاص کے بیٹے کو وہی مارے جو اس نے اسے ماری تھی۔ حضرت عمر نے مصری کو ایک کوڑا دیا اور کہا:
“مارو، اور اتنا ہی مارو جتنا تم پر ظلم ہوا!”

مصری نے کوڑا اٹھایا اور عمرو بن عاص کے بیٹے کو مارا، مگر حضرت عمر نے اسے روک دیا جب وہ محسوس کر چکے کہ انصاف ہو گیا ہے۔

نصیحت

اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عمرو بن عاص کی طرف رخ کیا اور کہا:
“اے عمرو! تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھنا شروع کر دیا ہے؟ حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد پیدا کیا تھا۔”

یہ سن کر عمرو بن عاص خاموش ہو گئے اور ان کے بیٹے کے چہرے پر ندامت کے آثار نمایاں تھے۔

سبق

یہ واقعہ ہمیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عدل و انصاف کے اصولوں کی جھلک دکھاتا ہے۔ ان کی قیادت میں قانون سب کے لیے یکساں تھا، چاہے وہ عام آدمی ہو یا حاکم کا بیٹا۔ حضرت عمر نے ہمیشہ یہ یقین دلایا کہ کسی کے ساتھ ظلم نہیں ہوگا، اور ہر مظلوم کو انصاف ملے گا۔

ان کا یہ عمل آج بھی حکمرانوں کے لیے ایک سبق ہے کہ انصاف کا قیام صرف طاقت سے نہیں، بلکہ دیانتداری اور خوفِ خدا سے ہوتا ہے۔ ان کا فرمان:
“لوگوں کو انصاف دو، ورنہ اللہ کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا”
ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

Leave a Comment