حضرت عمر اور ایک غیر متوقع نصیحت
ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، جو اپنے عدل و انصاف کی وجہ سے مشہور تھے، مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے چہرے پر گہری سوچ کے آثار تھے، اور وہ اپنے رب کے حضور دعا اور غور و فکر میں مشغول تھے۔ اچانک ایک آدمی کا وہاں سے گزر ہوا۔ وہ بلند آواز میں کہہ رہا تھا:
“اے عمر! تمہارے لیے جہنم کی آگ ہے۔”
یہ بات سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ چونک گئے، مگر انہوں نے غصے کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ان کی طبیعت میں حلم اور بردباری تھی۔ انہوں نے نرمی سے اس شخص کو اپنے قریب بلایا اور پوچھا:
“تم نے یہ بات کیوں کہی ہے؟ کیا تمہیں کوئی خاص بات معلوم ہے جو مجھے معلوم نہیں؟”
غیر معمولی جواب
وہ آدمی، جو ایک سادہ مگر حق گو انسان معلوم ہوتا تھا، حضرت عمر کے قریب آ کر بولا:
“میں نے یہ بات اس لیے کہی ہے کہ تم خلیفہ ہو۔ تمہارے کندھوں پر امت کا بوجھ ہے۔ اگر تم نے کسی بھی معاملے میں انصاف سے روگردانی کی یا کسی کے حق کو پامال کیا، تو اللہ کے سامنے جوابدہی تم پر ہوگی۔ اور اگر تم نے اپنے اختیار کا غلط استعمال کیا، تو تمہارا انجام جہنم کی آگ ہو سکتا ہے۔”
یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گہری سانس لی۔ ان کی پیشانی پر فکر کی لکیریں اور گہری ہو گئیں، مگر ان کی آنکھوں میں عاجزی کا نور تھا۔
حضرت عمر کا ردعمل
حضرت عمر نے اس آدمی کی طرف دیکھا اور کہا:
“تم نے سچ کہا۔ یہ منصب، یہ خلافت، نہایت بھاری ذمہ داری ہے۔ میں دن رات اسی خوف میں مبتلا رہتا ہوں کہ کہیں میرے کسی فیصلے یا عمل کی وجہ سے کوئی حق ضائع نہ ہو جائے۔”
انہوں نے آدمی سے پوچھا:
“کیا تم مجھے کوئی نصیحت کرو گے تاکہ میں اپنے معاملات میں مزید احتیاط برت سکوں؟”
آدمی کی نصیحت
آدمی نے کہا:
“اے عمر! یاد رکھو، جو شخص لوگوں پر حکومت کرتا ہے، وہ ان کا خادم ہوتا ہے، ان کا مالک نہیں۔ اگر تمہیں کسی غریب کی فریاد سنائی دے اور تم اس پر توجہ نہ دو، تو تم اللہ کے سامنے جوابدہ ہو گے۔ اور اگر تم نے اپنے دل میں تکبر کو جگہ دی، تو یہ تمہیں ہلاک کر دے گا۔”
یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انہوں نے کہا:
“اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ایسے لوگ پیدا کیے ہیں جو ہمیں ہمارے فرائض یاد دلاتے ہیں۔ تمہاری یہ نصیحت میرے دل میں ہمیشہ نقش رہے گی۔”
عاجزی کا مظاہرہ
حضرت عمر نے اس آدمی سے مزید گفتگو کی اور اس سے کہا:
“اگر تمہیں کبھی محسوس ہو کہ میں کسی معاملے میں کوتاہی کر رہا ہوں یا اپنی ذمہ داری کو بھول رہا ہوں، تو مجھے ضرور یاد دلانا۔ میں نہیں چاہتا کہ میری کسی غلطی کی وجہ سے امت کا نقصان ہو۔”
آدمی نے جواب دیا:
“اگر ہر حاکم تمہاری طرح ہو جائے، تو زمین انصاف سے بھر جائے گی۔”
سبق
یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ جو شخص قیادت یا اختیار کی ذمہ داری قبول کرتا ہے، اسے ہمیشہ اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ عاجزی اور حق پرستی ان کے عظیم کردار کی نشانی ہے۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ امت کے لیے ایک سبق اور رہنمائی کا ذریعہ ہے کہ اختیار کے ساتھ احتساب اور عاجزی کو اپنانا ضروری ہے۔
یہ کہانی ان لوگوں کے لیے ایک پیغام ہے جو قیادت کے منصب پر فائز ہوتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو خوفِ خدا کے ساتھ نبھائیں اور ہمیشہ اپنی اصلاح کے لیے تیار رہیں۔