کہانی: میدان خندق کا غرور شکن لمحہ
میدانِ خندق میں سورج ڈھل رہا تھا۔ کفارِ مکہ کے لشکر نے مدینہ کے گرد خندق کھودنے کی حکمت عملی کو عبور کرنے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہا۔ مگر عمرو بن عبدود، جو اپنے وقت کا ایک مشہور پہلوان اور جنگجو تھا، خندق کو عبور کر گیا اور مسلمانوں کو للکارنے لگا۔
عمرو نے اپنی تلوار آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے زور سے کہا، “ہے کوئی جو میرا مقابلہ کرے؟” اس کی گرجدار آواز سے ہوا میں لرزش پیدا ہوئی۔ مسلمانوں کی صفوں میں خاموشی چھا گئی۔ کسی نے جواب نہ دیا، کیونکہ سب جانتے تھے کہ عمرو بن عبدود کے ساتھ لڑنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔
حضرت علیؓ، جو نبی کریم ﷺ کے سب سے بہادر اور جانثار صحابی تھے، اٹھے اور عرض کی، “یارسول اللہ! میں اس کا مقابلہ کروں گا۔”
نبی کریم ﷺ نے فرمایا، “علی، بیٹھ جاؤ۔ تم جانتے ہو، وہ عمرو بن عبدود ہے۔“
دوسری بار عمرو نے پھر للکارا، “مسلمانوں! کیا تم میں کوئی مرد میدان نہیں؟ کیا تمہارے پاس کوئی ایسا نہیں جو مجھ سے لڑ سکے؟”
حضرت علیؓ دوبارہ اٹھے اور عرض کی، “یارسول اللہ! مجھے جانے دیجیے۔” مگر حضور ﷺ نے ایک بار پھر فرمایا، “علی، بیٹھ جاؤ۔”
تیسری بار عمرو نے اپنی آواز بلند کرتے ہوئے کہا، “تمہارا دین کیا یہی سکھاتا ہے کہ تم بزدل بن کر چھپ جاؤ؟”
یہ سن کر حضرت علیؓ کا جوش اور غیرت بڑھ گئی۔ وہ دوڑتے ہوئے نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی، “یارسول اللہ! مجھے اس کا سامنا کرنے دیجیے۔”
نبی کریم ﷺ نے علیؓ کی بہادری اور عزم کو دیکھ کر اجازت دے دی۔ انہوں نے اپنی دعاؤں سے حضرت علیؓ کو رخصت کیا اور اپنی تلوار “ذوالفقار” انہیں عطا کی۔
حضرت علیؓ میدان میں پہنچے تو عمرو نے تمسخرانہ انداز میں کہا، “اے نوجوان! واپس چلے جاؤ۔ میں نہیں چاہتا کہ تمہارا خون بہے۔”
حضرت علیؓ نے جواب دیا، “اے عمرو! میں خون سے نہیں، حق کے قیام سے آیا ہوں۔“
عمرو غصے سے دھاڑا اور اپنی تلوار سے وار کیا، لیکن حضرت علیؓ نے مہارت سے اس وار کو ناکام بنایا۔ پھر ایک پل ایسا آیا جب حضرت علیؓ نے ذوالفقار سے ایسا کاری وار کیا کہ عمرو زمین پر گر گیا۔
حضرت علیؓ نے اپنی فتح کے باوجود اسے قتل کرنے میں جلدی نہیں کی۔ عمرو نے اپنی شکست کو تسلیم کرتے ہوئے کہا، “علی، تم واقعی بہادر ہو۔”
یہ لمحہ مسلمانوں کی غیرت، حکمت اور حضرت علیؓ کی شجاعت کی ایک عظیم داستان بن گیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، “علی کی یہ ضرب تمام انسانوں کی عبادت سے افضل ہے۔”
یہ کہانی آج بھی ہمارے دلوں میں حق، شجاعت اور انصاف کی روشنی پیدا کرتی ہے۔