Qabar ki pehli raat kya hota hai | The first night of the grave | قبر کی پہلی رات

پہلی رات قبر میں

رات کا اندھیرا چھا چکا تھا۔ آسمان پر چاند اپنی روشنی بکھیر رہا تھا، لیکن زمین کے ایک گوشے میں گہری خاموشی اور اداسی چھائی ہوئی تھی۔ قبرستان میں ایک نیا قبر تیار ہو چکا تھا۔ لوگ اپنے پیارے کو دفن کر کے واپس جا چکے تھے۔ اب وہاں صرف خاموشی، ہوا کی سرسراہٹ، اور دور سے آنے والی کسی جانور کی آواز تھی۔

زاہد، جو چند گھنٹے پہلے دنیا کے شور و غوغا میں تھا، اب قبر کی گود میں لیٹا ہوا تھا۔ وہ ایک کامیاب تاجر تھا، جس کے پاس دنیاوی مال و دولت کی کوئی کمی نہ تھی۔ لیکن آج وہ سب کچھ پیچھے چھوڑ کر تنہا اس مٹی کے بستر پر تھا۔

قبر کی خاموشی

زاہد کو پہلی بار احساس ہوا کہ وہ کتنا اکیلا ہے۔ دنیا میں اس کے پاس بے شمار دوست اور عزیز تھے، لیکن اس وقت کوئی اس کے ساتھ نہیں تھا۔ اس کے ذہن میں سوالات اور خیالات کی ایک آندھی چلنے لگی:
“کیا واقعی یہ سب سچ ہے؟ کیا میں واقعی اس دنیا سے جا چکا ہوں؟”

فرشتوں کی آمد

اچانک، قبر کے اندر ایک عجیب سی روشنی نمودار ہوئی۔ زاہد نے گھبرا کر ادھر اُدھر دیکھا۔ دو فرشتے، منکر اور نکیر، اس کے سامنے کھڑے تھے۔ ان کی آواز گونج دار اور پرجلال تھی:
“تمہارا رب کون ہے؟”

زاہد نے جواب دینے کی کوشش کی، لیکن اس کی زبان کانپنے لگی۔ دنیاوی زندگی میں وہ دین سے دور تھا۔ اسے اللہ کی پہچان تھی، لیکن اس کا دل اور عمل ہمیشہ دنیاوی معاملات میں الجھا رہا۔

فرشتوں نے دوسرا سوال کیا:
“تمہارا دین کیا ہے؟”

زاہد کے ذہن میں الجھن پیدا ہوئی۔ اس کی زبان پر وہ الفاظ نہیں آ رہے تھے جو ایک مومن کے دل میں ہونے چاہئیں۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کاش وہ اپنی زندگی میں اسلام کو سمجھتا اور اس پر عمل کرتا۔

قبر کی تنگی

سوالات کے بعد فرشتے واپس چلے گئے، لیکن ان کے جانے کے بعد قبر تنگ ہونے لگی۔ زاہد کو ایسا لگا جیسے مٹی کی دیواریں اس کے جسم کو دبا رہی ہیں۔ اندھیرا اتنا گہرا تھا کہ اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس کے دل میں خوف نے گھر کر لیا تھا۔

اعمال کی حقیقت

اچانک، اس کے اعمال مجسم شکل میں اس کے سامنے آ گئے۔ اس کے گناہ ایک خوفناک شکل میں نمودار ہوئے، جبکہ نیکیاں بہت کمزور اور نحیف تھیں۔ زاہد نے چیخ کر کہا:
“کاش میں نے اپنی زندگی کو بدل لیا ہوتا! کاش میں نے نماز پڑھی ہوتی، کاش میں نے وقت پر صدقہ دیا ہوتا!”

سبق اور پچھتاوا

قبر کی پہلی رات زاہد کے لیے ایک سبق تھی، لیکن اب اس کے پاس وقت ختم ہو چکا تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ دنیاوی زندگی محض ایک امتحان تھی، اور اصل کامیابی آخرت کی تیاری میں ہے۔

اختتام

یہ رات زاہد کے لیے ایک کڑوی حقیقت لے کر آئی۔ وہ جان چکا تھا کہ دنیا کی چمک دمک عارضی ہے، اور اصل سرمایہ وہ ہے جو انسان اپنے رب کے لیے جمع کرتا ہے۔ لیکن اب وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا، سوائے اس کے کہ وہ اللہ کی رحمت کا طلب گار رہے۔

یہ کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زندگی مختصر ہے، اور قبر کی پہلی رات ایک حقیقت ہے جس کا سامنا ہر انسان کو کرنا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی دنیاوی زندگی کو اللہ کی رضا کے مطابق گزاریں تاکہ ہماری قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنے۔

Leave a Comment