امریکہ کے سابق نائب صدر ڈک چینی انتقال کر گئے
ڈک چینی: امریکی سیاست کی متنازع مگر بااثر شخصیت، 84 برس کی عمر میں انتقال کر گئے
واشنگٹن (اوصاف نیوز) — امریکہ کے سابق نائب صدر ڈک چینی 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق وہ طویل عرصے سے دل کے عارضے اور نمونیا میں مبتلا تھے۔ گزشتہ شب ان کی طبیعت اچانک خراب ہوئی جس کے بعد وہ انتقال کر گئے۔ ان کی موت کی تصدیق ان کے اہلِ خانہ نے ایک بیان میں کی۔
بیان میں کہا گیا کہ:
“ڈک چینی ایک عظیم، محب وطن اور دیانتدار شخص تھے جنہوں نے اپنے خاندان اور ملک دونوں کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ وہ ہمیں بہادری، غیرت اور وطن سے محبت کا سبق دے کر گئے۔”
امریکی سیاست میں نمایاں کردار
ڈک چینی نے 2001 سے 2009 تک صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں نائب صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اس دوران وہ امریکی تاریخ کی سب سے طاقتور نائب صدور میں سے ایک سمجھے جاتے رہے۔
ان کے دورِ حکومت میں 9/11 کے حملوں کے بعد امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور 2003 میں عراق پر حملہ وہ دو اہم واقعات تھے جنہوں نے نہ صرف امریکی بلکہ عالمی سیاست کو بھی تبدیل کر دیا۔
چینی کو عراق پر حملے کے فیصلے کا سب سے بڑا معمار تصور کیا جاتا ہے۔ وہ اس جنگ کے پُرجوش حامی تھے اور ان کا مؤقف تھا کہ عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں۔ بعد میں یہ الزامات جھوٹے ثابت ہوئے، جس کے بعد ان پر شدید تنقید کی گئی۔
ابتدائی زندگی اور سیاسی سفر
ڈک چینی 30 جنوری 1941 کو نیبراسکا میں پیدا ہوئے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے 1960 کی دہائی کے آخر میں امریکی سیاست میں قدم رکھا۔
1970 کی دہائی میں وہ صدر جیرالڈ فورڈ کے دور میں وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف مقرر ہوئے۔ اس عہدے کے دوران انہوں نے انتظامی امور میں مہارت حاصل کی اور خود کو ایک مضبوط اور منظم منتظم کے طور پر منوایا۔
بعدازاں وہ ایوانِ نمائندگان کے رکن منتخب ہوئے اور 10 سال تک کانگریس میں خدمات انجام دیں۔
1989 میں صدر جارج ایچ ڈبلیو بش نے انہیں سیکریٹری دفاع مقرر کیا۔ اس حیثیت میں انہوں نے خلیجی جنگ (Gulf War) کے دوران امریکی افواج کی قیادت کی نگرانی کی، جس سے ان کی سیاسی ساکھ میں مزید اضافہ ہوا۔
بطور نائب صدر — ایک طاقتور مگر متنازع شخصیت
2001 میں جارج ڈبلیو بش کے نائب صدر منتخب ہونے کے بعد ڈک چینی نے امریکی پالیسیوں پر گہرا اثر ڈالا۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ “پسِ پردہ صدر” کے طور پر اہم فیصلے کرتے تھے۔
ان کی سخت گیر پالیسیوں، خفیہ کارروائیوں اور سی آئی اے کے خصوصی اختیارات کے حوالے سے ان کے کردار پر ہمیشہ بحث ہوتی رہی۔
چینی نے قومی سلامتی کے نام پر کئی ایسے فیصلوں کی حمایت کی جنہیں انسانی حقوق کی تنظیموں نے تنقید کا نشانہ بنایا — مثلاً گوانتانامو بے جیل، واٹر بورڈنگ اور دیگر سخت تفتیشی طریقے۔
ان کے ناقدین انہیں “امریکی طاقت کے غلط استعمال” کی علامت قرار دیتے تھے، جبکہ ان کے حامی انہیں “قوم کا محافظ” کہتے تھے۔
خاندانی زندگی اور ذاتی پہلو
ڈک چینی کی شادی لین چینی سے ہوئی تھی، جو خود بھی ایک مصنفہ اور سیاست دان رہ چکی ہیں۔ ان کی دو بیٹیاں ہیں — لیز چینی (جو امریکی کانگریس میں نمایاں رہیں) اور میری چینی۔
خاندانی زندگی میں وہ نرم مزاج اور شفیق باپ کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ان کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی کامیابی پر ہمیشہ فخر محسوس کرتے تھے۔
عالمی ردِعمل
ان کے انتقال پر امریکہ اور دنیا بھر سے سیاسی رہنماؤں کی جانب سے تعزیتی پیغامات موصول ہوئے ہیں۔
سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے ایک بیان میں کہا:
“ڈک چینی میرے سب سے قریبی دوستوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے امریکہ کے مفاد کے لیے جو خدمات انجام دیں وہ ناقابلِ فراموش ہیں۔ ان کا انتقال میرے لیے ذاتی اور قومی سطح پر ایک بڑا نقصان ہے۔”
برطانوی وزیراعظم اور کئی یورپی رہنماؤں نے بھی انہیں “غیر معمولی ذہانت اور فیصلہ کن قیادت رکھنے والا رہنما” قرار دیا۔
تاریخ میں کردار اور وراثت
ڈک چینی کی موت کے بعد امریکی تاریخ ایک ایسے باب کو الوداع کہہ رہی ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ، عراق پر حملہ اور امریکی سلامتی پالیسیوں کو نئی شکل دی۔
ان کا دور امریکی تاریخ کے سب سے زیادہ متنازع مگر اثر انگیز ادوار میں شمار ہوتا ہے۔
مؤرخین کے مطابق چینی کی پالیسیوں نے جہاں ایک مضبوط امریکہ تشکیل دیا، وہیں ان پالیسیوں نے عالمی سطح پر کئی تنازعات کو بھی جنم دیا۔
نتیجہ
ڈک چینی کا انتقال ایک ایسے رہنما کی رخصتی ہے جس نے اپنی پوری زندگی سیاست، سلامتی اور اقتدار کے محور میں گزاری۔
وہ اپنے ناقدین کے لیے سخت گیر مگر مؤثر شخصیت تھے، اور حامیوں کے لیے ایک غیر متزلزل امریکی محب وطن۔
ان کی وفات کے ساتھ ایک دور ختم ہوا — وہ دور جس نے امریکی سیاست میں طاقت، جنگ، اور قومی سلامتی کے معنی ہمیشہ کے لیے بدل دیے۔