تربیلا ڈیم کی مٹی میں 636 ارب ڈالر مالیت کا سونا — پاکستان کے لیے خوشحالی کا نیا باب؟


0
Categories : News

تربیلا ڈیم کی مٹی میں 636 ارب ڈالر مالیت کا سونا — پاکستان کے لیے خوشحالی کا نیا باب؟

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) — پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ایسا انکشاف سامنے آیا ہے جس نے نہ صرف معاشی ماہرین کو حیران کیا بلکہ عوامی سطح پر بھی امید کی نئی لہر پیدا کر دی۔
چیئرمین ایئر کراچی اور معروف صنعتکار حنیف گوہر نے اعلان کیا ہے کہ تربیلا ڈیم کی مٹی میں 636 ارب امریکی ڈالر مالیت کے سونے کے ذخائر موجود ہیں۔

ان کے مطابق یہ دعویٰ محض مفروضے پر مبنی نہیں بلکہ باقاعدہ سائنسی تحقیق، نمونہ جات کے ٹیسٹ اور بین الاقوامی معیار کے تجزیوں کے بعد سامنے آیا ہے۔
گوہر کا کہنا ہے کہ اس دریافت کی تفصیلی رپورٹ وزیراعظم پاکستان اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو پیش کی جاچکی ہے، جنہوں نے اس پر انتہائی مثبت ردعمل ظاہر کیا۔


🌍 دریافت کی کہانی: تربیلا ڈیم سے سونے تک

کراچی پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حنیف گوہر نے بتایا کہ یہ تحقیق ان کی نجی ٹیم کی جانب سے کئی ماہ کی محنت کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ماہر غوطہ خوروں کی مدد سے تربیلا ڈیم کے مختلف حصوں سے مٹی کے نمونے حاصل کیے گئے۔
ان نمونوں کو بعد ازاں بین الاقوامی لیبارٹریز میں بھجوایا گیا، جہاں جدید ترین تجزیاتی ٹیکنالوجی کے ذریعے ان میں موجود دھاتوں کی مقدار معلوم کی گئی۔

لیبارٹری نتائج نے حیران کن طور پر یہ ظاہر کیا کہ مٹی میں سونے کے ذرات نمایاں مقدار میں پائے جاتے ہیں۔
جب ان تناسبات کو ڈیم کے کل مٹی کے حجم پر ضرب دی گئی تو سونے کی مجموعی مالیت تقریباً 636 ارب امریکی ڈالر تک پہنچی۔


⚙️ تحقیقی مراحل: سائنسی طریقے سے ثابت شدہ نتائج

یہ سوال اکثر سامنے آتا ہے کہ ڈیم کی مٹی سے سونا کیسے حاصل ہو سکتا ہے؟
دراصل، تربیلا ڈیم میں دریائے سندھ سے بہنے والا پانی شمالی علاقوں سے آتا ہے — جہاں چٹانیں معدنیات سے بھرپور ہیں۔
یہ چٹانیں آہستہ آہستہ قدرتی کٹاؤ (erosion) کے ذریعے سونے کے باریک ذرات دریا میں شامل کرتی ہیں۔
وقت کے ساتھ یہ ذرات ڈیم میں جمع ہو جاتے ہیں، جس سے مٹی معدنی لحاظ سے قیمتی بن جاتی ہے۔

لیبارٹری ٹیسٹوں کے دوران X-Ray Diffraction (XRD) اور Spectroscopy Analysis کے ذریعے ان ذرات کی موجودگی کی تصدیق ہوئی۔
ماہرین کے مطابق، اگر حکومت اس منصوبے کو جدید مشینری اور تکنیکی مہارت کے ساتھ شروع کرے تو قابلِ عمل نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔


🏛️ حکومتی سطح پر پیشرفت: فوج اور واپڈا کی شمولیت

حنیف گوہر نے بتایا کہ انہوں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ وزیراعظم پاکستان کو تفصیلی بریفنگ دی، جس کے بعد معاملہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے سامنے پیش کیا گیا۔
آرمی چیف نے نہ صرف اس انکشاف میں دلچسپی ظاہر کی بلکہ فوراً ایس آئی ایف سی (Special Investment Facilitation Council) کے سربراہ جنرل سرفراز کو معاملے کی نگرانی کا حکم دیا۔

بعد ازاں، حنیف گوہر نے جی ایچ کیو میں بھی ایک باضابطہ پریزنٹیشن دی، جس میں چیئرمین واپڈا سجاد غنی سمیت دیگر اعلیٰ حکام شریک تھے۔
ان ملاقاتوں کے نتیجے میں یہ کیس واپڈا کو مزید تکنیکی جائزے کے لیے بھیج دیا گیا تاکہ عملی امکانات کا تخمینہ لگایا جا سکے۔


💰 636 ارب ڈالر کا مطلب کیا ہے؟

پاکستان کی معیشت کا حجم تقریباً 375 ارب امریکی ڈالر کے قریب ہے۔
اگر تربیلا ڈیم سے حاصل ہونے والے سونے کی مالیت واقعی 636 ارب ڈالر کے قریب ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے پاس اپنی موجودہ معیشت سے تقریباً دوگنا زیادہ خزانہ قدرتی طور پر موجود ہے۔

ماہرین معاشیات کے مطابق، اگر اس منصوبے سے حاصل شدہ سونا قومی خزانے میں شامل ہو جائے تو:

  1. پاکستان آئی ایم ایف کی ضرورت سے آزاد ہو سکتا ہے۔
  2. قومی قرضے جو اس وقت 130 ارب ڈالر سے زائد ہیں، مکمل طور پر ادا کیے جا سکتے ہیں۔
  3. روپے کی قدر میں نمایاں استحکام آ سکتا ہے۔
  4. تعلیم، صحت، دفاع، انفراسٹرکچر جیسے شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ممکن ہو گی۔

🧪 ماہرین کی رائے: امید یا مبالغہ؟

اس دریافت کے بعد جہاں عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، وہیں ماہرین ارضیات اور توانائی کے ماہرین نے محتاط رویہ اپنانے کا مشورہ دیا ہے۔
پاکستان کے معروف جیو سائنٹسٹ ڈاکٹر شعیب مغل کے مطابق:

“یہ دریافت یقیناً دلچسپ ہے، لیکن کسی بھی بڑے معدنی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے ہمیں معیاری ارضیاتی سروے، گہرے کور سیمپلز اور طویل مدتی تجزیے کرنے ہوں گے۔”

ان کا کہنا تھا کہ اگر تربیلا ڈیم میں واقعی سونے کی اتنی بڑی مقدار موجود ہے، تو یہ دنیا کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔
تاہم، غلط اندازہ یا تکنیکی خامی کی صورت میں عوامی توقعات کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔


🔬 تکنیکی عمل: مٹی سے سونا نکالنے کا طریقہ

مٹی سے سونا حاصل کرنے کے کئی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔
عام طور پر Hydraulic Mining, Cyanidation, اور Gravity Separation جیسے طریقے سب سے مؤثر سمجھے جاتے ہیں۔

تربیلا ڈیم کی مٹی چونکہ پانی سے سیراب ہے، اس لیے Wet Extraction Technology استعمال کی جا سکتی ہے۔
یہ طریقہ ماحول دوست بھی ہے اور پانی کے دوبارہ استعمال کو بھی ممکن بناتا ہے۔

حنیف گوہر کے مطابق، اگر حکومت اجازت دے تو ان کی کمپنی جدید مشینوں کے ذریعے مٹی کو صاف کر کے سونا الگ کرنے کا کام شروع کر سکتی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ حاصل شدہ سونا مکمل طور پر ریاست پاکستان کے حوالے کیا جائے گا۔


🌱 ماحولیاتی خدشات اور حفاظتی اقدامات

ڈیم جیسے حساس ماحولیاتی نظام میں کوئی بھی صنعتی سرگرمی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سونا نکالنے کے دوران اگر کیمیائی مواد کا استعمال کیا گیا تو یہ پانی کے معیار، مچھلیوں اور زراعت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ حکومت اس منصوبے کے لیے ایک Environmental Impact Assessment (EIA) تیار کرے۔
تاکہ سونا حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ قدرتی نظام کو بھی محفوظ رکھا جا سکے۔


⚖️ قانونی پہلو: ملکیت کس کی ہوگی؟

پاکستان کے آئین کے مطابق، ڈیم اور زیرِ زمین معدنیات کی ملکیت وفاقی حکومت کی ہوتی ہے۔
تاہم، اگر یہ منصوبہ نجی شعبے کے اشتراک سے مکمل کیا جاتا ہے تو ایک Public-Private Partnership ماڈل کے تحت آمدنی کی تقسیم طے کی جا سکتی ہے۔

ذرائع کے مطابق، حنیف گوہر نے حکومت کو پیشکش کی ہے کہ اگر وہ خود اس منصوبے پر کام نہیں کر سکتی تو ان کی کمپنی اپنی لاگت پر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔
اس کے بدلے میں تمام حاصل شدہ منافع ریاست پاکستان کو منتقل کیا جائے گا۔


💬 عوامی ردعمل: سوشل میڈیا پر خوشی اور سوالات

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس خبر نے زبردست ردعمل حاصل کیا۔
کئی صارفین نے امید ظاہر کی کہ اگر یہ دریافت درست ثابت ہوئی تو پاکستان کے دن پھر سکتے ہیں۔
تاہم کچھ لوگوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ کہیں یہ دعویٰ کسی سیاسی یا کاروباری مفاد کے لیے تو نہیں کیا گیا۔

ایک صارف نے لکھا:

“اگر واقعی 636 ارب ڈالر کا سونا موجود ہے تو یہ پاکستان کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ مگر خدارا، اسے صرف خبروں تک محدود نہ رکھیں۔”


🏗️ اقتصادی امکانات: سونے سے زیادہ قیمتی موقع

یہ منصوبہ صرف معدنی دولت کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک اقتصادی انقلاب کی بنیاد بن سکتا ہے۔
اس سے پاکستان میں روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا ہوں گے، انجینئرنگ، ٹرانسپورٹ، اور توانائی کے شعبے مضبوط ہوں گے۔

اگر حکومت اس منصوبے کو بین الاقوامی سطح پر Joint Venture کی شکل دے، تو عالمی سرمایہ کاری پاکستان کی جانب راغب ہو سکتی ہے۔
عالمی کمپنیاں جیسے کہ Barrick Gold، Rio Tinto یا BHP Minerals اس میں دلچسپی ظاہر کر سکتی ہیں۔


🇵🇰 قومی مفاد: شفافیت اور اعتماد ضروری

پاکستان میں ماضی میں ریکوڈک اور سیندک جیسے منصوبے سیاسی تنازعات اور غیر شفاف معاہدوں کی وجہ سے متاثر ہوئے۔
اس لیے ماہرین کا مشورہ ہے کہ اس منصوبے کو قومی مفاد کے دائرے میں مکمل شفافیت کے ساتھ چلایا جائے۔
اس کے لیے ایک علیحدہ سونا نکالنے کی اتھارٹی بنائی جا سکتی ہے جو پارلیمنٹ کے ماتحت ہو۔


🧭 نتیجہ: قدرت کی طرف سے ایک نایاب موقع

تربیلا ڈیم کے سونے کے ذخائر کا انکشاف پاکستان کے لیے ایک تاریخی موقع ہے۔
اگر اس موقع کو درست سمت میں استعمال کیا گیا تو یہ ملک کے لیے معاشی خودمختاری، صنعتی ترقی اور عوامی خوشحالی کا نیا دور ثابت ہو سکتا ہے۔

حنیف گوہر کا یہ عزم کہ وہ اپنی لاگت پر منصوبہ مکمل کر کے سونا ریاست کے حوالے کریں گے، ایک قومی خدمت کے مترادف ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے کیا اقدامات کرتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *