Maa Ki Nafarman Hafze Quran Larhki Ka Anjam

ماں اور باپ کی نافرمانی کرنے والی حافظہ قرآن لڑکی کا انجام

یہ کہانی ایک چھوٹے سے گاؤں کی ایک لڑکی، عائشہ کی ہے۔ عائشہ نہایت ذہین تھی اور بچپن ہی سے قرآن مجید کی حافظہ بن چکی تھی۔ اس کی زبانی قرآن کے آیات ایسے جاری ہوتی تھیں جیسے وہ ایک بہتے ہوئے چشمے کی مانند ہوں، لیکن دل میں جو بات تھی وہ کوئی اور تھی۔ عائشہ ماں اور باپ دونوں کی نافرمان تھی۔ اس کی ماں ایک غریب اور محنتی عورت تھی، اور باپ بھی ایک متوسط طبقے کے فرد تھے۔ دونوں اپنی بیٹی کی تعلیم اور ترقی کے لئے ہمیشہ محنت کرتے رہے، لیکن عائشہ ان کی باتوں کو نظرانداز کرتی تھی اور ان کی عزت نہیں کرتی تھی۔

عائشہ کو اپنی تعلیم پر بہت فخر تھا، وہ خود کو بہت بڑا سمجھتی تھی، لیکن ایک بات ہمیشہ اس کی شخصیت میں چھپی رہی، اور وہ تھی ماں باپ کی عزت کا فقدان۔ وہ ہمیشہ اپنی ماں سے سخت کلامی کرتی، اس کی باتوں کو نظرانداز کرتی اور اپنے والد کو بھی کم تر سمجھتی۔ وہ اپنے والدین کو معمولی سمجھ کر ان سے بے رخی اختیار کرتی۔ اس کے دل میں اللہ کی رضا کی بجائے اپنے علم اور حیثیت کا غرور تھا۔

ایک دن عائشہ کی ماں بیمار ہو گئی اور اس کی حالت اتنی بگڑ گئی کہ وہ بستر پر پڑی رہنے لگی۔ عائشہ کو اس کی پرواہ نہ تھی، وہ اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزار رہی تھی اور اس کی ماں کی حالت بے بسی میں تھی۔ ایک دن اس کی ماں نے کہا:
“بیٹی، تمہاری دعائیں اور محبتیں میری زندگی کی سب سے بڑی دعا ہیں، لیکن تم نے ہمیشہ میری عزت نہیں کی، میں تم سے صرف یہ چاہتی ہوں کہ تم اپنی زندگی میں سچائی اور محبت کی راہ اپناؤ۔”

عائشہ نے ماں کی باتوں کو نظرانداز کیا اور اسے صرف اتنا کہا:
“تمہاری بیماری مجھے پریشان کرتی ہے، مجھے تمہاری حالت سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔”

چند دن بعد، عائشہ کی ماں کا انتقال ہو گیا۔ عائشہ کو اس کا کوئی غم نہیں تھا، بلکہ وہ اسے ایک معمولی واقعہ سمجھ رہی تھی۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرا، عائشہ کا دل ایک عجیب بے سکونی سے بھرنے لگا۔ اسے محسوس ہونے لگا کہ اس کے اندر کچھ کمی ہے، لیکن پھر بھی وہ اپنی غلطیوں پر توجہ دینے کی بجائے، اپنے غرور میں غرق تھی۔

عائشہ 32 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ایک دن اچانک زندگی کی راہوں سے ہٹ گئی۔ وہ ایک روز اپنے کمرے میں بیٹھی تھی کہ اچانک اس کا دل دہلنے والی حالت میں بدلا۔ اس کا جسم زرد پڑ گیا، اور وہ بے ہوش ہو گئی۔ اسے فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا، لیکن ڈاکٹروں نے جواب دے دیا کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ عائشہ کی موت نے سب کو دلی صدمے میں مبتلا کر دیا، مگر اس کی زندگی کے آخری لمحوں میں اس نے اپنی ماں اور باپ سے جو نافرمانی کی تھی، اس کا اثر پورے جسم پر آ چکا تھا۔

جب عائشہ کو دفن کیا گیا، تو اس کی قبر میں ایک عجیب و غریب منظر پیش آیا۔ قبر کی مٹی میں ایک عجیب سی آگ جلنے لگی، جیسے کہ اس کے جسم میں کیسی اندر کی آگ تھی جو اس کے اعمال کا نتیجہ تھی۔ یہ منظر دیکھ کر لوگ خوف زدہ ہو گئے۔ اس آگ کا شدت سے دھواں اٹھ رہا تھا، اور لوگوں کو ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ عذاب کی علامت ہو۔

اس خوفناک منظر کو دیکھ کر گاؤں کے لوگ اللہ سے معافی کی دعائیں کرنے لگے۔ وہ سب عائشہ کی قبر کے پاس جمع ہو گئے اور اللہ کے سامنے عاجزی سے سر جھکاتے ہوئے معافی مانگنے لگے، کہ اللہ ہمیں اپنی ہدایت دے اور عائشہ کے غلط اعمال کو معاف کر دے۔

اسی دوران، قبر میں آگ کی شدت میں کمی آنا شروع ہوئی، اور پھر یک دم وہ آگ ختم ہو گئی۔ لوگوں نے اللہ کے حکم سے یہ سمجھا کہ جب لوگ سچے دل سے توبہ کرتے ہیں، تو اللہ کی رحمت سے عذاب ختم ہو جاتا ہے۔

گاؤں کے بزرگوں میں سے ایک شخص نے کہا،
“ہمیں عائشہ کے اس عذاب سے عبرت لینی چاہیے اور یہ سیکھنا چاہیے کہ ماں اور باپ کی عزت کا کیا مقام ہے۔ اللہ نے ہمیں ان کے ذریعے دنیا کی سب سے بڑی نعمت دی ہے، اور جو ان کی نافرمانی کرتا ہے، وہ دنیا اور آخرت میں سخت عذاب کا سامنا کرتا ہے۔”

یہ واقعہ لوگوں کے دلوں میں ایک گہرا اثر چھوڑ گیا، اور سب نے اپنے اعمال پر نظرثانی کی۔ عائشہ کی نافرمانی اور اس کے بعد آنے والے عذاب نے لوگوں کو یہ سکھایا کہ ماں باپ کی عزت کرنا، اللہ کی رضا کا راستہ ہے۔

اللہ سے معافی کی دعا
عائشہ کی قبر کے قریب کھڑے ہوئے لوگ اللہ سے دعا کرنے لگے کہ،
“یا اللہ، ہمیں اپنی ہدایت دے اور ہمیں اپنے والدین کی عزت کرنے کی توفیق دے۔ جیسے عائشہ کی ماں نے اسے معاف کیا، ویسے ہی ہمیں بھی اللہ کی رحمت کی بارش چاہیے۔”

اگر آپ بھی اپنی زندگی میں اس سبق کو اپنانا چاہتے ہیں، تو مزید اسلامی کہانیاں اور عبرت انگیز واقعات پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں: اسلامی کہانیاں۔

یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ ماں اور باپ کی عزت کرنے کے باوجود ہمیں اپنے اعمال کا احتساب کرنا چاہیے، تاکہ ہم اللہ کی رضا کے راستے پر چل سکیں اور اس سے مغفرت حاصل کر سکیں۔

Leave a Comment