اُسامہ بن لادن کس بھیس میں امریکی فوج سے بچ کر پاکستان پہنچا؟
دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کا نام خوف اور تجسس کی علامت بن گیا تھا۔ 11 ستمبر کے حملوں کے بعد امریکہ نے اُس کی تلاش کے لیے تاریخ کی سب سے بڑی انٹیلی جنس مہم شروع کی۔ تاہم ایک عرصے تک اُسامہ بن لادن امریکی فوج اور خفیہ اداروں کو چکمہ دینے میں کامیاب رہا۔ سب سے دلچسپ سوال یہ ہے کہ وہ افغانستان سے نکل کر پاکستان کیسے پہنچا اور کس بھیس میں چھپا رہا؟
مختلف خفیہ رپورٹس اور ماہرین کی تحقیقات کے مطابق 2001ء میں تورا بورا کی لڑائی کے بعد اُسامہ بن لادن نے اپنے چند قریبی ساتھیوں کے ساتھ پہاڑی راستوں کے ذریعے پاکستان کا رخ کیا۔ اطلاعات کے مطابق اُس نے اس دوران عام دیہاتی یا مذہبی مبلغ کا روپ دھارا۔ وہ ایک پرانے قسم کے کپڑے، چادر اور عمامہ پہن کر سفر کرتا رہا تاکہ وہ ایک عام قبائلی یا مولوی نظر آئے۔
ذرائع کے مطابق اُسامہ بن لادن نے پہلے قبائلی علاقے باجوڑ اور پھر کوہاٹ کے قریب کچھ عرصہ گزارا۔ بعد ازاں وہ ایبٹ آباد منتقل ہوا جہاں اس نے ایک محفوظ کمپاؤنڈ میں پناہ لی۔ اس عرصے میں وہ بیرونی دنیا سے تقریباً کٹ چکا تھا۔ یہاں تک کہ اس نے اپنی شناخت چھپانے کے لیے بیرونی رابطے محدود کر دیے اور اپنے ساتھیوں کو بھی محتاط رہنے کی ہدایت دی۔
امریکی انٹیلی جنس کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ وہ جدید ترین ٹیکنالوجی کے باوجود اُسامہ بن لادن کا سراغ نہ لگا سکے۔ 2011ء میں جب امریکی نیوی سیلز نے ایبٹ آباد آپریشن کیا تو پوری دنیا حیران رہ گئی کہ دنیا کا سب سے مطلوب شخص ایک ایسی جگہ موجود تھا جو پاکستان کی ایک فوجی اکیڈمی کے قریب واقع تھی۔
یہ بات آج بھی زیرِ بحث ہے کہ اُسامہ بن لادن نے اپنے حلیے، عادات اور طرزِ زندگی کو اتنی کامیابی سے کیسے بدل لیا کہ وہ تقریباً دس سال تک دنیا کی نظروں سے اوجھل رہا۔ بعض ماہرین کے مطابق اس نے مذہبی عالم، تبلیغی یا بزرگ کا روپ اختیار کیا، جس سے اس کی شناخت مزید مشکل ہوگئی۔
اُسامہ بن لادن کی یہ کہانی نہ صرف خفیہ جنگوں کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ دنیا کی سب سے طاقتور انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی بعض اوقات انسانی فطرت اور ذہانت کے سامنے بے بس ہو جاتی ہیں۔