بیوی کو دفن کرتے ہوئے چپکے سے اپنا موبائل قبر میں رکھ دیا — رات 1 بجے بیوی کی یاد آئی تو موبائل پر کال کی تو…
ایک ایسا واقعہ جس نے مقامی لوگوں کو چونکا دیا اور سوشل میڈیا پر بحث چھڑ گئی۔ قصبے کے ایک آدمی نے اپنی وفات پانے والی بیوی کی قبر میں خاموشی سے اپنا موبائل فون رکھ دیا — جس کی وجہ اور نیت لوگوں میں سوالات پیدا کر گئی۔ پھر جب رات 1 بجے اسے بیوی کی یاد آئی تو اُس نے قبر میں رکھے موبائل پر فون کیا۔ جو (ممکنہ طور پر) ہوا، اس نے سارے قصے کی نوعیت بدل دی۔
منظرِ عام
واقعہ ایک چھوٹے سے قصبے کا ہے جہاں لوگ مقتل کے قریب جمع تھے اور نمازِ جنازہ کے بعد بیوی کو دفن کر دیا گیا۔ رشتہ داروں کے بقول، شوہر غم زدہ تھا مگر اُس نے قبر بنانے کے بعد ایک چھوٹا سا عمل سر انجام دیا — اُس نے اپنے جیب سے موبائل نکالا اور چپکے سے قبر کے کنارے میں یا قبر کے اندر رکھ دیا۔ کئی گواہ کہہ رہے ہیں کہ وہ عمل جذباتی تھا؛ کچھ نے کہا وہ “یادگار” رکھ رہا تھا، جبکہ دوسرے نے کہا کہ یہ ایک عجیب حرکت تھی۔
رات کا واقعہ
شام گزرنے کے بعد سب گھر چلے گئے۔ رات تقریباً 1 بجے، شوہر کو بیوی کی شدید یاد آئی — اتنا کہ اس نے فوراً قبر میں رکھے موبائل پر کال کر ڈالی۔ یہاں سے کہانی دو رخ اختیار کرتی ہے:
- کچھ لوگوں کے مطابق — موبائل بجا اور کسی نے کال اٹھا کر خاموشی سے “ہیلو” کہہ دیا، جس سے وہ شخص خوفزدہ ہوا اور اس قصبے میں افواہوں کا آغاز ہوا۔
- دوسرے بیانیوں میں — فون کسی نے نہ اٹھایا، مگر کال کا ریکارڈ یا لاگ موجود تھا، یا فون خود بخود کسی نوٹس یا الارم کی طرح حرکت میں آیا۔
سوشل میڈیا پر تصویروں اور ویڈیوز کے دعوے گردش کرنے لگے — مگر حقیقت جاننے کے لیے مقامی پولیس اور مذہبی رہنماؤں نے بھی مداخلت کی ضرورت محسوس کی۔
ماہرین اور مذہبی نقطۂ نظر
اس قسم کے واقعات میں کئی زاویے ہوتے ہیں:
- ٹیکنیکل وضاحت: موبائل کی آواز دور سے بھی سنائی دے سکتی ہے، اور اگر فون قبر کے قریب رکھی گئی تھی تو نیٹ ورک کی وجہ سے کال بج سکتی ہے یا وائبریشن سے آواز آسکتی ہے۔ کبھی کبھار فونز کے اندر سیٹنگز یا الارمز بھی اچانک فعال ہو جاتے ہیں۔
- نفسیاتی پہلو: غمزدگی میں لوگ ایسے عمل کر بیٹھتے ہیں — کوئی یادگار رکھ دے، کوئی ایسی حرکت کر دے جو بظاہر منطقی نہ ہو۔ رات کے اوقات میں احساسِ تنہائی اور دکھ زیادہ بڑھ جاتا ہے، اس لیے کال کرنے جیسی حرکتیں فطری بھی ہیں۔
- مذہبی و ثقافتی تبصرے: مذہبی رہنما عام طور پر اس طرزِ عمل کی تردید کرتے ہیں، کیونکہ اسلام میں مردہ کے ساتھ احترام کے اصول واضح ہیں — قبر میں غیر ضروری اشیاء رکھنا ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔ بعض علما نے کہا کہ ایسے عمل جتنا جذباتی کیوں نہ ہوں، انہیں شرعی طور پر مناسب نہیں سمجھا جا سکتا۔
قانونی پہلو اور اخلاقی سوالات
بعض حلقوں نے سوال اٹھایا کہ آیا قبر میں اشیاء رکھنے سے غیبتی یا قانونی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں؟ عام طور پر قبر میں اشیاء رکھنے کا تعلق مقامی رسوم و رواج اور مذہبی آداب سے ہوتا ہے۔ پولیس اور دفن کرنے والے اداروں کی طرف سے کہا گیا کہ اگر قبر میں کوئی نقصان دہ چیز رکھی گئی ہو تو اس کی تحقیقات کی جا سکتی ہیں، تاہم اس واقعے میں نقصان یا جرم کی واضح علامتیں سامنے نہیں آئیں۔
مقامی ردِ عمل اور سوشل میڈیا
سوشل میڈیا پر لوگوں کا ردِ عمل دو حصوں میں منقسم رہا:
- کچھ نے شوہر کی ہمدردی اور دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ انسان غم میں کوئی بھی حرکت کر سکتا ہے۔
- دوسری جانب، کئی لوگوں نے اس حرکت کو غیر مناسب اور بے احترامی قرار دیا، خاص طور پر جب دفن اور قبروں کا اسلامی احترام کی روایات کے مطابق ہونا متوقع تھا۔
کئی صارفین نے وائرل ویڈیوز اور تبصروں کے بعد عوامی سطح پر شعور بڑھانے کی اپیل کی — کہ جنازہ اور تدفین کے وقت اصول و ضوابط کا خیال رکھا جائے۔
اخلاقی سبق اور نصیحت
یہ واقعہ ہمیں چند اہم باتیں سکھاتا ہے:
- غم میں جذباتی حرکتیں عام ہیں، مگر آداب کا خیال ضروری ہے۔ انسانی جذبات قابلِ فہم ہیں، مگر قبروں اور مردگان کے ساتھ احترام لازمی ہے۔
- ٹیکنالوجی اور عقائد کا ملاپ حساس معاملہ بن سکتا ہے۔ موبائل درحقیقت ایک چیز ہے، مگر اُس کا قبر میں رکھنا ثقافتی اور مذہبی حساسیت کو چھیڑ سکتا ہے۔
- اگر آپ کسی کو یاد کر رہے ہوں تو آرام دہ اور شائستہ طریقے اختیار کریں۔ رات کو قبر پر جا کر چیزیں رکھنا، یا قبر سے متعلق کوئی نمائشی حرکت کرنا کئی لوگوں کے لیے تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔
نتیجہ
آخر میں، یہ واقعہ ایک جذباتی انسانیت، سماجی حساسیت اور مذہبی آداب کے درمیان ٹکراؤ کی مثال ہے۔ چاہے موبائل کی وجہ سے کوئی “معجزاتی” لمحہ دکھائی دیا ہو یا محض ایک ٹیکنیکل واقعہ ہو — اہم یہ ہے کہ ہم اپنے اعمال میں احترام اور شعور برقرار رکھیں۔
