کراچی سے قوم پرست کارکن غنی امان اللہ لاپتہ — اہلِ خانہ پر تشدد، واقعہ نے سوالات کھڑے کر دیے

عنوان: کراچی سے قوم پرست کارکن غنی امان اللہ لاپتہ — اہلِ خانہ پر تشدد، واقعہ نے سوالات کھڑے کر دیے

خبر کی تفصیل:
کراچی (نیوز ڈیسک) شہرِ قائد سے ایک اور قوم پرست کارکن غنی امان اللہ کے مبینہ طور پر لاپتہ ہونے کی خبر نے انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ غنی امان اللہ کو ہسپتال سے اہلکاروں نے اٹھایا جبکہ مزاحمت کرنے پر اہلِ خانہ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

غنی امان اللہ کے بھائی کے مطابق، ’’رینجرز کی گاڑیاں ہسپتال کے باہر آئیں، اہلکار اندر داخل ہوئے اور میرے بھائی کو زبردستی اٹھا کر لے گئے۔ جب ہم نے روکنے کی کوشش کی تو انہوں نے ہمیں دھکے دیے اور موبائل فون چھین لیے۔‘‘ اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ واقعہ کی اطلاع فوری طور پر مقامی تھانے کو دی گئی، تاہم پولیس نے لاپتہ ہونے کی رپورٹ درج کرنے سے گریز کیا۔

عینی شاہدین کے مطابق واقعہ گزشتہ رات اس وقت پیش آیا جب غنی امان اللہ ایک زخمی دوست کی عیادت کے لیے ہسپتال گئے تھے۔ کچھ دیر بعد سفید گاڑیوں میں سوار نقاب پوش افراد ہسپتال کے اندر داخل ہوئے اور انہیں زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔ اس دوران ہسپتال کے سیکیورٹی کیمروں کی فوٹیج مبینہ طور پر حادثے کے چند منٹ بعد غائب کر دی گئی۔

انسانی حقوق کے رہنماؤں نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بغیر عدالتی حکم گرفتاری یا زبردستی لاپتہ کیے جانے کے واقعات آئین اور شہری آزادیوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے غنی امان اللہ کی فوری بازیابی کو یقینی بنائیں اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں۔

دوسری جانب رینجرز ترجمان نے اس واقعے سے کسی بھی قسم کی مداخلت یا گرفتاری کی تردید کی ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ اگر کسی کے پاس ٹھوس شواہد ہیں تو وہ متعلقہ حکام کو فراہم کرے۔

پس منظر:
غنی امان اللہ ایک متحرک قوم پرست کارکن سمجھے جاتے ہیں، جو گزشتہ کئی برسوں سے لسانی و علاقائی حقوق کے لیے سرگرم رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وہ حالیہ دنوں میں سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی مہم میں بھی شریک تھے۔

نتیجہ:
غنی امان اللہ کا لاپتہ ہونا کراچی میں جبری گمشدگیوں کے بڑھتے واقعات پر نئے سوالات کھڑا کر رہا ہے۔ اہلِ خانہ انصاف کے متلاشی ہیں جبکہ حکومتی ادارے خاموش ہیں۔ انسانی حقوق کے مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر ایسے واقعات کی شفاف تحقیقات نہ ہوئیں تو عوام کا اعتماد قانون نافذ کرنے والے اداروں پر مزید کمزور ہو جائے گا۔

Leave a Comment