بھارتی فضائیہ کو چینی فضائیہ سے بہتر قرار دیے جانے پر چینی دفاعی تجزیہ کار کا دلچسپ ردِعمل
بیجنگ (این این آئی) عالمی سطح پر جاری کی گئی فضائی قوتوں کی درجہ بندی میں بھارتی فضائیہ کو چینی فضائیہ سے بہتر قرار دیے جانے پر چین کے معروف دفاعی تجزیہ کار نے دلچسپ ردِعمل دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حقیقی فضائی برتری کا فیصلہ کاغذی اعداد و شمار سے نہیں بلکہ میدانِ عمل میں صلاحیتوں سے ہوتا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق چینی دفاعی تجزیہ کار ژانگ جنشے (Zhang Junshe) نے عالمی دفاعی ڈائریکٹری WDMMA (World Directory of Modern Military Aircraft) کی تازہ درجہ بندی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ فہرست محض عددی تفصیلات پر مبنی ہے، جس میں کسی ملک کی تربیت، حکمتِ عملی، جنگی تجربہ اور ٹیکنالوجی کی جدت کو شامل نہیں کیا گیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ:
“فضائیہ کی اصل طاقت کا اندازہ جنگی حالات میں لگایا جاتا ہے، نہ کہ کسی ڈیسک پر بیٹھ کر بنائے گئے ریاضیاتی فارمولے سے۔ یہ درجہ بندیاں اکثر حقیقت سے دور اور سیاسی مقاصد کے لیے بنائی جاتی ہیں۔”
یاد رہے کہ WDMMA کی حالیہ رپورٹ میں 103 ممالک کی 129 فضائی قوتوں کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا تھا، جس میں بھارتی فضائیہ کو امریکا اور روس کے بعد دنیا کی تیسری بڑی فضائی طاقت قرار دیا گیا۔ اس فہرست کے مطابق چین کی فضائیہ بھارت سے ایک درجہ نیچے دکھائی گئی ہے۔
رپورٹ میں استعمال ہونے والا پیمانہ TruVal Rating کہلاتا ہے، جو کسی فوج کی مجموعی طاقت، لاجسٹکس، حملے اور دفاع کی استعداد کو دیکھتا ہے، تاہم یہ نظام ٹیکنالوجی کی برتری یا تربیت کی معیار کو شامل نہیں کرتا۔
بین الاقوامی جریدے نیوز ویک نے اس درجہ بندی کو “عالمی طاقت کے توازن میں ممکنہ تبدیلی” قرار دیا تھا، جس کے مطابق بھارت نے خطے میں چین کے مقابلے میں نمایاں برتری حاصل کر لی ہے۔
تاہم چینی تجزیہ کار ژانگ جنشے نے اس موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ:
“یہ محض میڈیا کی سنسنی خیزی ہے۔ بھارت کے پاس ہوائی جہاز زیادہ ہو سکتے ہیں، مگر اصل سوال یہ ہے کہ ان کے پائلٹس، سسٹمز اور دفاعی حکمتِ عملی کس حد تک جدید اور ہم آہنگ ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ چین کی فضائیہ نے پچھلے چند برسوں میں جدید ترین اسٹیلتھ ٹیکنالوجی، ڈرون سسٹمز اور جدید فائٹر جیٹس (جیسے J-20) کے ذریعے خطے میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کیا ہے، جو کسی بھی “کاغذی درجہ بندی” سے کہیں زیادہ مؤثر ثبوت ہے۔
عالمی دفاعی ماہرین کے مطابق اس قسم کی درجہ بندیاں اکثر سیاسی تاثر پیدا کرنے کے لیے کی جاتی ہیں، جبکہ عملی طور پر کسی بھی ملک کی فوجی طاقت کا اندازہ صرف حقیقی تنازعات اور مشقوں میں ہی کیا جا سکتا ہے۔
