لندن: دی اکانومسٹ کی تہلکہ خیز رپورٹ — بشریٰ بی بی، روحانیت، سیاست اور حساس اداروں کا کردار
لندن (این این آئی) برطانوی جریدے “دی اکانومسٹ” نے اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی تیسری اہلیہ بشریٰ بی بی کے گھر آنے کے بعد نہ صرف عمران خان کی ذاتی زندگی بلکہ اُن کے سیاسی فیصلوں، حکومتی رویوں اور ریاستی اداروں کے ساتھ تعلقات پر بھی گہرا اثر پڑا۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ عمران خان کے گھر میں ایسے ایسے غیر معمولی روحانی اور مذہبی رسومات رائج تھیں جنہوں نے کئی حلقوں کو حیرت میں ڈال دیا۔
گھر میں عجیب و غریب رسومات—کچا گوشت، سیاہ بکرے اور قبرستان کی سرگرمیاں
دی اکانومسٹ کے مطابق عمران خان کی رہائش گاہ پر ایسے روحانی اعمال کیے جاتے تھے جن کا مقصد مبینہ طور پر “منفی اثرات سے بچاؤ” بتایا جاتا تھا۔ رپورٹ میں درج ہے کہ:
- عمران خان کے سر کے گرد کچے گوشت کو گھمانا
- روزانہ سیاہ بکرے یا مرغیوں کے سر قبرستان لے جا کر پھینکوانا
- کبھی کبھار زندہ سیاہ بکرے خاص رسومات کیلئے منگوانا
ذرائع نے دعویٰ کیا کہ یہ تمام کام بشریٰ بی بی کی ہدایات پر کیے جاتے تھے۔
بشریٰ بی بی—ایک شخصیت، جو پسِ پردہ سب سے طاقتور؟
دی اکانومسٹ کے مطابق بشریٰ بی بی پاکستانی سیاست کا وہ کردار ہیں جو منظرِ عام پر کم نظر آیا مگر پسِ پردہ ان کا اثر و رسوخ بے حد طاقتور رہا۔ عمران خان انہیں “روحانی رہنما” مانتے تھے اور ان کے مطابق کئی اہم حکومتی فیصلے انہی کی رہنمائی میں کیے جاتے تھے۔
رپورٹ کے مطابق:
- عمران خان کی پروازیں تک روحانی اوقات کے مطابق روکی جاتی تھیں
- ایک فلائٹ چار گھنٹے صرف اس لیے تاخیر کا شکار رہی کہ بشریٰ بی بی کے مطابق وہ وقت “اڑان کیلئے موزوں نہیں تھا”
حساس اداروں کی دلچسپی—فیض حمید اور روحانی معلومات کا کھیل
رپورٹ کے مطابق بشریٰ بی بی میں ریاستی حساس اداروں کی دلچسپی ان کی خفیہ شادی کے بعد شروع ہوئی۔
الزام یہ بھی سامنے آیا کہ:
- آئی ایس آئی کا ایک افسر مبینہ اطلاعات ایک پیر کو دیتا
- پیر وہ “روحانی پیش گوئی” بشریٰ بی بی تک پہنچاتے
- بشریٰ بی بی وہ معلومات عمران خان کو “روحانی بصیرت” کے طور پر بتاتیں
- جب باتیں درست ثابت ہوتیں تو عمران خان کا یقین مزید مضبوط ہوتا جاتا
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنرل فیض حمید مبینہ طور پر اس پورے عمل میں بنیادی کردار تھے۔
فوج کے ساتھ کشیدگی—عاصم منیر کی برطرفی اور علیمہ خان کا کردار
دی اکانومسٹ کے مطابق عمران خان اور فوج کے تعلقات میں ایک مرحلے پر شدید تناؤ پیدا ہوا۔
بعض فوجی افسران کے مطابق:
- عمران خان اپنی اہلیہ کی باتوں پر حد سے زیادہ انحصار کرنے لگے
- یہی وجہ ہے کہ 2019 میں جنرل عاصم منیر کی برطرفی بھی بشریٰ بی بی کے اثر کا نتیجہ بتائی گئی
- سیاسی حلقوں میں اعتماد کی کمی پیدا ہوئی
- 2022 کے بعد عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف کیسز کی بھرمار ہوئی
رپورٹ کے مطابق کچھ پی ٹی آئی رہنماؤں کا خیال ہے کہ اگر عمران خان کبھی فوج سے مصالحت کی طرف گئے تو اس کا مرکزی ذریعہ بشریٰ بی بی ہی ہوں گی، مگر علیمہ خان سمیت کئی لوگ اس کے خلاف ہیں۔
روزمرہ حکومتی معاملات پر روحانی اثر — تقرریاں، تبادلے اور فیصلہ سازی
برطانوی جریدے نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ عمران خان کی حکومت میں:
- اہم تقرریاں، تبادلے
- ملاقاتیں
- بیرونی دورے
- حکومتی رائے سازی
سب کچھ “روحانی مشوروں” کی بنیاد پر کیا جانے لگا تھا۔
کئی مبصرین کے مطابق اس رجحان نے عمران خان کے اصلاحاتی بیانیے کو شدید نقصان پہنچایا، اور وہ اپنی پالیسیوں پر مستقل مزاجی سے عمل نہ کر سکے۔
خاور مانیکا کا مؤقف—”Bushra Bibi is an evil genius”
رپورٹ میں خاور مانیکا سے بھی گفتگو شامل کی گئی جنہوں نے کہا:
“Bushra Bibi is an evil genius”
ان کے مطابق بشریٰ بی بی کے فیصلے پہلے دن سے ہی انتہائی سوچے سمجھے تھے اور وہ ہر قدم اپنے مفاد کیلئے اٹھاتی رہیں۔
روحانی شخصیات کا مؤقف—”پیر نے مرید سے شادی کی؟ ہم نہیں مانتے”
دی اکانومسٹ کی ٹیم نے مختلف روحانی شخصیات سے رابطہ کیا جنہوں نے کہا کہ:
- روحانیت میں مرید سے شادی کرنا غیر معمولی اور ناقابل قبول عمل ہے
- یہ تعلق ایک مخصوص مقصد یا طاقت کے حصول کیلئے استعمال ہوا
- اگر روحانی قوت واقعی موجود ہوتی تو “عمران خان اور پی ٹی آئی کا انجام مختلف ہوتا”
ایک خاتون صحافی نے کہا:
“حکومت چلانا جادو اور تعویزات کی بنیاد پر ممکن نہیں ہوتا۔ ایک جوہری ملک کے فیصلے ایسے رسومات پر نہیں چھوڑے جا سکتے۔”
نتیجہ — سیاست، روحانیت اور ریاست کے درمیان خطرناک Triangle
دی اکانومسٹ کی یہ رپورٹ صرف عمران خان یا بشریٰ بی بی پر نہیں، بلکہ پاکستانی سیاست کے اس پہلو پر بھی روشنی ڈالتی ہے جس میں:
- روحانیت
- ریاستی ادارے
- اور سیاسی قیادت
آپس میں گڈمڈ ہونے لگے تھے، جس کا نتیجہ آخر میں سیاسی بحران، عدالتی مقدمات اور عوامی بے یقینی کی صورت میں سامنے آیا۔