بھارت کی افغان طالبان کے ساتھ آبی جنگی حکمتِ عملی — پاکستان نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

بھارت کی افغان طالبان کے ساتھ آبی جنگی حکمتِ عملی — پاکستان نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

خطے میں بدلتی ہوئی جیو پولیٹیکل صورتحال کے ساتھ پانی کے مسئلے نے ایک نیا اور حساس رخ اختیار کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارت نے افغان طالبان کے ساتھ آبی تعاون کے ایک خفیہ منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے، جس کا مقصد دریائے کابل اور اس سے منسلک آبی گزرگاہوں پر اثر و رسوخ حاصل کرنا ہے۔ پاکستان نے اس پیش رفت کو خطے کے لیے “خطرناک آبی جنگ کی ابتدا” قرار دیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق بھارت نے افغانستان میں کئی چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈیم منصوبوں میں دلچسپی ظاہر کی ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں سے دریائے کابل پاکستان کی سرحد میں داخل ہوتا ہے۔ ان منصوبوں کے ذریعے بھارت پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے اور پاکستان کے آبی وسائل پر دباؤ ڈالنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اگر بھارت اور افغانستان کے درمیان آبی تعاون کے منصوبے حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں، تو اس کے براہِ راست اثرات خیبرپختونخوا، خصوصاً چارسدہ، نوشہرہ اور اٹک کے علاقوں میں پڑ سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان علاقوں میں زراعت کا بڑا انحصار دریائے کابل کے پانی پر ہے، اور کسی بھی تبدیلی سے پاکستان میں آبی بحران شدت اختیار کر سکتا ہے۔

دفترِ خارجہ کے ذرائع کے مطابق اسلام آباد نے اس معاملے پر سفارتی سطح پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ اور ساؤتھ ایشین ریجنل کوآپریشن کونسل (سارک) کے فورمز پر بھی اس معاملے کو اٹھانے کا عندیہ دیا ہے۔

بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت “واٹر ڈپلومیسی” کے ذریعے خطے میں نرم طاقت (Soft Power) کا استعمال کر رہا ہے۔ افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا بھی اسی حکمتِ عملی کا حصہ ہے تاکہ پاکستان پر سفارتی اور ماحولیاتی دباؤ بڑھایا جا سکے۔

پاکستانی ماہرِ آبی وسائل ڈاکٹر فہد نعیم کے مطابق:

“اگر بھارت کابل دریا کے پانی کو ڈیمز کے ذریعے روکنے یا موڑنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پاکستان کی زراعت، توانائی اور ماحولیاتی نظام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔”

دوسری جانب، طالبان حکومت نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی واضح مؤقف اختیار نہیں کیا، مگر افغان وزارتِ توانائی نے حالیہ بیانات میں کہا ہے کہ افغانستان کو “اپنے پانی کے وسائل پر مکمل حق حاصل ہے۔”

پاکستان نے اس صورتحال کو “آبی سلامتی کے خطرے” کے طور پر لیا ہے اور متعلقہ اداروں کو ہنگامی اقدامات کی ہدایت دی ہے۔
یہ تنازعہ بظاہر پانی کا ہے، مگر اس کے اثرات سیاسی، معاشی اور سلامتی کے میدانوں تک پھیل سکتے ہیں — اور یہی وہ مقام ہے جہاں خطے کی آبی جنگ ایک حقیقت کا روپ دھار سکتی ہے۔

Leave a Comment