چلغوزے کے پھول: پہاڑوں سے منڈیوں تک ایک مشکل اور محنت طلب سفر

چلغوزے کے پھول: پہاڑوں سے منڈیوں تک ایک مشکل اور محنت طلب سفر

چلغوزہ پاکستان کے شمالی علاقوں کا قیمتی قدرتی خزانہ ہے۔ اس کی مانگ نہ صرف ملکی منڈیوں میں بڑھ رہی ہے بلکہ یہ بیرونِ ملک بھی انتہائی مہنگے داموں فروخت ہوتا ہے۔ لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ چلغوزے کے پھول توڑنے سے لے کر اس کے بیج نکالنے تک کا عمل کتنا مشکل، خطرناک اور محنت طلب ہوتا ہے۔

نیچے پورا عمل آسان انداز میں، قدم بہ قدم بیان کیا گیا ہے:


1۔ چلغوزے کا درخت اور پھول کیسے تیار ہوتے ہیں؟

چلغوزہ اصل میں پائن نٹ ہوتا ہے جو ’’چیل‘‘ یا ’’دیودار‘‘ جیسے مخصوص مخروطی درختوں کے پھل سے نکلتا ہے۔

  • ان درختوں پر مخروطی شکل کے پھول لگتے ہیں، جنہیں کونز (Cones) کہا جاتا ہے۔
  • یہ پھول 2 سے 3 سال میں مکمل تیار ہوتے ہیں۔
  • جب پھول سخت اور بھاری ہوں، تو اس کا مطلب ہے کہ ان کے اندر چلغوزے کے بیج پک چکے ہیں۔

2۔ پھول توڑنے کا مشکل اور خطرناک عمل

چلغوزے کے درخت عام درختوں کی طرح نیچے سے جھکے ہوئے نہیں ہوتے بلکہ بہت اونچے اور سیدھے ہوتے ہیں۔ پھول توڑنے والوں کو بڑی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔

طریقہ کار:

  • مقامی افراد شہتیر یا رسی کی مدد سے درخت پر چڑھتے ہیں۔
  • بعض علاقوں میں بدمعاشی یا خطرناک کوہ پیمائی تکنیک سے 60 سے 100 فٹ تک چڑھ کر پھول توڑے جاتے ہیں۔
  • مضبوط لکڑی سے بنی ایک چھڑی کے ساتھ پھولوں کو زور سے جھٹکا دے کر گراتے ہیں۔
  • نیچے کھڑے افراد کپڑے، پلاسٹک شیٹ یا جال بچھا کر پھول اکٹھے کرتے ہیں۔

خطرات:

  • ایک معمولی پھسلن سے مزدور کئی فٹ نیچے گر سکتے ہیں۔
  • شمالی علاقوں میں یہ کام شدید ٹھنڈ میں ہوتا ہے، اس لیے تھکن اور سردی دونوں خطرناک ہوتی ہیں۔

3۔ پھول جمع ہو کر منڈیوں تک کیسے پہنچتے ہیں؟

پھول توڑنے کے بعد انہیں فوراً مقامی جگہوں پر قائم عارضی گوداموں میں جمع کیا جاتا ہے۔

پروسیس:

  1. مزدور پھولوں کو بوروں میں بھرتے ہیں۔
  2. گھوڑوں، خچروں یا جیپ کے ذریعے پہاڑی راستوں سے نیچے لایا جاتا ہے۔
  3. پھر یہ پھول ضلع کی منڈیوں تک پہنچتے ہیں جہاں تاجر بڑی تعداد میں یہ کونز خریدتے ہیں۔
  4. بڑے خریدار انہیں پشاور، کراچی، لاہور اور اسلام آباد کی بڑی ہول سیل مارکیٹوں میں سپلائی کرتے ہیں۔

4۔ چلغوزہ پھولوں سے کیسے نکالا جاتا ہے؟

یہ حصہ سب سے زیادہ محنت اور وقت لیتا ہے۔

مرحلہ 1: پھولوں کو دھوپ میں سکھانا

  • کونز (پھول) کھلے میدان میں 5 سے 10 دن تک تیز دھوپ میں پھیلائے جاتے ہیں۔
  • دھوپ پڑنے سے پھول خود بخود کھلنے لگتے ہیں اور اندر موجود بیج باہر پھسل کر نکلنے لگتے ہیں۔

مرحلہ 2: پھولوں کو کوٹنا

اگر پھول مکمل طور پر نہ کھلیں تو انہیں:

  • لکڑی کے ہتھوڑے
  • یا بھاری لوہے کی ڈرم مشین
    سے ہلکے جھٹکے دے کر کھولا جاتا ہے۔

مرحلہ 3: چلغوزے کا بیج نکالنا

پھول کھلنے کے بعد اندر سے نکلنے والے چلغوزے کے بیج پر ایک سخت ’’چھلکا‘‘ ہوتا ہے۔

  • یہ بیج سکھا کر سیاہ یا خاکی چھلکے سمیت فروخت ہوتے ہیں۔
  • چھلکا اتارنے کے لیے خصوصی پروسیسنگ مشینیں استعمال کی جاتی ہیں یا ہاتھ سے توڑا جاتا ہے۔

5۔ چلغوزہ اتنا مہنگا کیوں ہوتا ہے؟

چلغوزے کی زائد قیمت کی بنیادی وجوہات یہ ہیں:

  • پھول توڑنے کا عمل انتہائی خطرناک
  • محنت طلب پروسیسنگ
  • پھولوں میں بیج بہت کم ہوتے ہیں
  • ایک کلو چلغوزہ حاصل کرنے کے لیے تقریباً 30–40 کلو کونز درکار ہوتے ہیں
  • نقل و حمل کا خرچ، خصوصی مشینری، اور تجارتی لاگت

اسی لیے بازار میں عام چلغوزہ ہزاروں روپے فی کلو فروخت ہوتا ہے۔


نتیجہ

چلغوزہ ہمارے شمالی علاقوں کی محنت، بہادری اور قدرتی دولت کا حسین امتزاج ہے۔
پہاڑی چوٹیوں سے پھول توڑنے سے لے کر منڈیوں تک پہنچانے اور پھر بیج الگ کرنے تک ہر قدم خطرہ، محنت اور مہارت کا تقاضا کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ چلغوزہ صرف ایک خشک میوہ نہیں بلکہ پاکستان کے پہاڑوں کی پوری کہانی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔

Leave a Comment